إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
بلاشبہ ہم نے تجھ پر یہ کتاب لوگوں کے لیے حق کے ساتھ نازل کی ہے، پھر جو سیدھے راستے پر چلا سو اپنی جان کے لیے اور جو گمراہ ہوا تو اسی پر گمراہ ہوگا اور تو ہرگز ان پر کوئی ذمہ دار نہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : عقیدہ توحید کے مفہوم میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنے اور دوسرے کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں۔ اسی طرح کوئی اپنی اور کسی کی ہدایت اور گمراہی کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ نبی (ﷺ) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ نبی کریم (ﷺ) دن کے وقت لوگوں کی ہدایت کے لیے محنت فرماتے اور رات کو تہجد کی نماز میں ان کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ اسکے باوجود لوگ آپ کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ (ﷺ) رنجیدہ خاطر ہوجاتے۔ جس پر آپ کو تسلی دینے کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔ اگر لوگ قرآن مجید سے راہنمائی پانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ دو باتیں یاد رکھیں جن میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو قرآن مجید سے راہنمائی پائے گا دنیا اور آخرت میں اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ جس نے رہنمائی پانے کی بجائے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کا نقصان بھی اسے ہی اٹھاناپڑے گا کیونکہ ہم نے آپ کو ان کا وکیل نہیں بنایا۔ لہٰذا آپ کا کام لوگوں تک حق بات پہنچانا ہے سو آپ پہنچاتے جائیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ بھی ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! ان کی گمراہی کا آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس بات کو یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ ﴿فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ﴾[ الغاشیہ :21] ” آپ انہیں نصیحت کرتے رہیں آپ کا کام بس پہنچانا ہے“