سورة الزمر - آیت 33

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت33سے35) ربط کلام : حق کو جھٹلانے والے کے مقابلے میں سچائی کی تصدیق کرنے والے کا مقام اور صلہ۔ جو شخص لوگوں کے سامنے سچائی کے ساتھ آیا اور جس نے سچائی کی حمایت کی وہی لوگ اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جس کی وہ تمنا کریں گے۔ نیکی کرنے والوں کو اس طرح ہی صلہ دیا جائے گا۔ حق لانے والے سے مراد سرور دوعالم (ﷺ) کی ذات گرامی ہے۔ تصدیق کرنے والوں میں سر فہرست صحابہ کرام (علیہ السلام) کی جماعت ہے۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے صحابہ ( علیہ السلام) کو حق بات کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کیا اور دل و جان کے ساتھ حق کا ساتھ دیا۔ اللہ کے رسول (ﷺ) اور صحابہ (رض) کے بعدہر آدمی اس صلہ کا حق دار ٹھہرے گا۔ جس نے سچائی کو قبول کیا اور خلوصِ دل کے ساتھ لوگوں تک حق بات پہنچانے کی جدوجہد کرتا رہا۔ ایسے لوگ ہی صاحب تقویٰ ہیں انہیں وہ سب کچھ دیا جائے گا جس کی وہ چاہت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو ختم فرمائے گا اور ان کے نیک کاموں کا بہترین بدلہ دینے کے ساتھ انہیں اپنے کرم سے مزید نوازتا رہے گا۔ گناہوں کے خاتمہ کے بارے میں ” کَفَّرَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کسی بات کو ہر اعتبار سے چھپادیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق دل سے حق کو ماننے والے اور اپنی استعداد کے مطابق اس کا پرچار کرنے والوں کے نامہ اعمال سے ان کے گناہوں کو کلیتاً ختم کردیا جائے گا۔ الحمد للہ علی ذالک! (مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی ....] ” جس نے نیکی کے کام کی رہنمائی کی اس کو نیکی کرنے والے کے برابر اجر ملے گا۔“ نبی اکرم (ﷺ) کی دعا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () کَانَ یَقُولُ فِی سُجُودِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، اعلانیہ اور پوشیدہ کیے ہوئے تمام کے تمام گناہ معاف فرمادے۔“ احسن بات اور احسن عمل : ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ [ حم السجدہ :33] ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کسی کی ہوسکتی ہے کہ جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں۔“ مسائل: 1۔ جس شخص نے حق قبول کیا اور اسے لوگوں تک پہنچایا اس کے لیے بہترین اجر ہوگا۔ 2۔ حق قبول کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے والے کے گناہوں کو بالکل ختم کردیا جاتا ہے۔ 3۔ مذکورہ شخص پر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بے انتہا کرم نوازیاں فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہے : 1۔ میں اللہ سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف :98) 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے معاف کر دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران :129) 3۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ:99) 4۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ :199) 5۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں سکتے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( النحل :18) 6۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے یہی لوگ امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ:218) 7۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون :109)