سورة الزمر - آیت 24

أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بد ترین عذاب سے بچے گا (وہ جنتی جیسا ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائےگا چکھو جو تم کمایا کرتے تھے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جن لوگوں نے ہدایت کے باوجود گمراہی کو پسند کیا ان کا انجام۔ جس شخص نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے قیامت کے دن اسے بد ترین عذاب ہوگا اور انہیں کہا جائے گا کہ ظالمو ! اپنے کیے کا مزہ چکھو۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس پر کوئی چیز سامنے سے حملہ آور ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس سے اپنا چہرہ چھپانے اور بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہنم کی آگ اس قدر شعلہ فگن ہوگی جس کے شعلے پہاڑوں کی مانند ہوں گے اور جہنمی کا جسم اتنا بڑا گا کہ اس کی زبان تین میل لمبی اور اس کی ایک ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق) جب اسے جہنم میں دھکیلا جائے گا تو جہنم کی آگ طوفان کی شکل میں اس کا استقبال کرے گی اور اس کے شعلے اس قدر جوش مارتے ہوئے جہنمی کے چہرے کی طرف لپکیں گے۔ کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اس کا چہرہ بچ جائے لیکن وہ کسی صورت اپنا چہرہ اور جسم نہ بچا سکے گا۔ ﴿کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ [ الہمزۃ: 4تا9] ” ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یقیناً وہ حطمہ میں ڈال دیا جائے گا اور تجھے کیا معلوم حطمہ کیا ہے۔ حطمہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک چڑھ آئے گی وہ آگ ان کو گھیرے ہوئے ہے لمبے لمبے ستونوں میں بندھے ہوئے ہیں۔“ ﴿لَہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذَلِکَ یُخَوِّفُ اللَّہُ بِہِ عِبَادَہُ یَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ﴾[ الزمر :16] ” ان کے اوپر اور نیچے سے آگ ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمھاری دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے ستر درجے کم ہے۔ صحابہ نے عرض کی کیا یہی آگ کافی نہیں تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے کے برابر ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم[ضعیف]] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا دوزخ کی آگ کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا تو وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتی کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ مسائل: 1۔ جہنمی جہنم کی آگ سے اپنے چہرے بچانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ ہرگز نہ بچا سکیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر صورت اپنے کردار کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ تفسیربالقرآن: جہنم کی آگ کا جوش : 1۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ:24) 2۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ:81) 3۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان :12) 4۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق :30) 5۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم :6) 6۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی چٹخارسنیں گے۔ (الملک :7) 7۔ جہنم کی آگ کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کے برابر بلند ہوں گے۔ ( المرسٰلٰت :32)