تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت1سے2) سورۃ صٓ کے آخر میں آپ (ﷺ) سے کہلوایا گیا کہ نبوت کے کام کے بدلے نہ میں تم سے کسی قسم کا طالب ہوں اور نہ میں تکلّف کرنے والا ہوں۔ جو کچھ تمہارے سامنے بیان کررہاہوں وہ رب العالمین کی طرف سے ایک نصیحت ہے۔ جو اس نصیحت کو تسلیم نہیں کرے گا وہ ایک وقت کے بعد خود اس کا انجام دیکھ لے گا۔ سورۃ الزمر کا آغاز اس فرمان سے ہو رہا ہے کہ جو برے انجام سے بچنا چاہتا ہے اس کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جس طرح اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کو اس ” اللہ“ نے نازل کیا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب اور زبردست ہے۔ غالب اور زبردست ہونے کے باوجود اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اے حبیب (ﷺ) ! ہم ہی نے آپ کی طرف قرآن مجید کو حق اور سچ کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس کا پہلا حکم یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی کی فرمانبرداری کرتے رہو ! اہل مکہ کو بارہا دفعہ یہ بات بتلائی گئی کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے نبی (ﷺ) پر نازل فرمایا ہے اس کے باوجود مکہ والے قرآن کو من جانب اللہ ماننے کے لیے تیا نہ تھے۔ حالانکہ انہیں مختلف الفاظ میں کئی مرتبہ چیلنج دیا گیا کہ اگر تم قرآن کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ یہ نبی یا کسی شخص کا بنایا ہوا ہے تو پھر تمہیں موقع دیا جاتا ہے کہ تم بھی اس جیسا قرآن بنا کرلے آؤ۔ تمہیں یہاں تک سہولت دی جاتی ہے کہ قرآن مجید کی کسی ایک سورت جیسی کوئی سورت بنا لاؤ۔ کفار اس چیلنج کا جواب دینے میں زندگی بھر ناکام رہے۔ مگر اس کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتے رہے۔ نہ صرف انکار کرتے تھے بلکہ قرآن مجید کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ یہ محمد (ﷺ) کی اپنی اختراع ہے۔ ان کے مسلسل پروپیگنڈہ کی تردید میں قرآن مجید نے یہ اسلوب اپنایا کہ موقع محل کے مطابق کھلے الفاظ میں یا بین السطور یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ یہ قرآن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ وہ چاہے تو لوگوں کو اپنی قوت و سطوت کے ذریعے اسے تسلیم کروا سکتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ اسے تسلیم کریں یا اس کا انکار کرتے رہیں۔ قرآن مجید کا پہلا پیغام اور حکم یہ ہے کہ صرف ” اللہ“ کی تابعداری کرتے ہوئے اسی ایک کی عبادت کی جائے۔ یہی پہلی اور بڑی حکمت ہے۔ عبادت کے اس تصور کا وسیع تر تخیل یہ ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اور آپ (ﷺ) سے یہی بات کہلوائی گئی ہے۔ ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ [ الانعام : 162تا163] ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والا ہوں۔“ الدّین کا مفہوم : دین اسلام اپنے نام اور نظام کے اعتبار سے کامل اور اکمل ہے دین کے لفظی معانی ہیں تابع دار ہونا، دوسرے کو اپنا تابع دار بنانا۔ مکمل اخلاص اور یکسوئی کا اظہار کرنا، قانون، مکمل ضابطۂ حیات، جزا وسزا اور قیامت کے دن کے لیے بھی الدّین بولا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل جاننے کے لیے درج ذیل تفسیربالقرآن: آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) تفسیر بالقرآن: ” اَلدِّیْنُ“ کے معانی : 1۔ دین سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ( الفاتحۃ:3) 2۔ دین کا معنٰی شریعت ہے۔ (النساء :125) 5۔ قانون : (یوسف :76) 3۔ اطاعت اور بندگی۔ (الزّمر :11) 4۔ شریعت : (یونس :104) 6۔ حکمرانی : (المومن :59) 7۔ جزاء وسزا (بدلہ): (الذّ اریا ت :6)