قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ
کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔
فہم القرآن: (آیت86سے88) ربط کلام : ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر آپ (ﷺ) کی زبان سے کہلوایا گیا کہ یہ قرآن مجید دنیا والوں کے لیے نصیحت ہے جو اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک وقت کے بعد اسے خود ہی اپنے انجام کی خبر ہوجائے گی۔ لہٰذا میں نے ” لِوَجْہِ اللّٰہِ“ تمہیں اس سے آگاہ کردیا ہے۔ اس خطاب کا آغاز آیت 65سے ہوا جس میں آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ اعلان کرتے جائیں کہ اللہ کے سوا کوئی قیام، رکوع، سجود اور ہر قسم کی بندگی کے لائق نہیں۔ وہی نعمتیں عطا کرنے والا اور بگڑی بنانے والا ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے اکیلا اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔ سورۃ صٓ اور اس کے آخری حصہ کا اختتام اس فرمان پر ہو رہا ہے کہ آپ (ﷺ) یہ بھی اعلان کرتے رہیں کہ تم میری مخالفت کرو یا موافقت۔ اس دعوت اور محنت کے بدلے میں تم سے کسی ستائش اور مفاد کا طلب گار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی بات اپنی طرف سے کہتاہوں اور نہ میں تصنع اور تکلف کرتا ہوں جس دعوت کی تم مخالفت کررہے ہو یہ تو لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ اگر تم اسی طرح ہی مخالفت کرتے رہے تو تمہیں ایک مدت کے بعد اس کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ یہ وقت تمہاری زندگی میں بھی آسکتا ہے۔ البتہ موت کے بعد یقیناً تم اس کے انجام سے پوری طرح آگاہ ہوجاؤگے۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ الْعَبَدِیِ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَانَ الْفَارَسِیَ (رض) یَقُوْلُ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَنْ نَتَکَلَّفَ للضَّیْفِ)[ رواہ الحاکم فی المستدرک وہو حدیث صحیح ] ” حضرت عبدالرحمن بن مسعود العبدی کہتے ہیں کہ میں نے سلمان فارسی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمانوں کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا تھا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ (رض) فَقَالَ نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام] ” حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف کرنے سے منع کیے گئے تھے۔“ یعنی رسول اللہ (ﷺ) صحابہ کو تکلف کرنے سے منع کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَأَصْحَابَہٗ لاَ یَفْعَلُوْنَ إِلاَّ ذٰلِکَ یَعْنِی لاَ یَفْعَلُونَ إِلاَّ ذٰلِکَ الاِجْتِنَابَ ) [ رواہ البخاری کتاب الدعوات، باب مَا یُکْرَہُ مِنَ السَّجْعِ فِی الدُّعَآءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دعا میں قافیہ بندی سے بچو۔ کیونکہ میں ایک عرصہ آپ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں نبی (ﷺ) اور صحابہ (رض) دعا میں تکلف اور قافیہ بندی نہیں کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کسی سے کسی قسم کا مفاد طلب نہیں کرتے تھے۔ 2۔ نبی محترم (ﷺ) کوئی بات اپنی طرف سے کرنے والے نہ تھے۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) تکلف پسند نہیں کرتے تھے۔ 4۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ 5۔ قرآن اور اس کی دعوت کا انکار کرنے والوں کو اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور آخرت میں مجرمین کا اعتراف حقیقت کرنا : 1۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف :34) 2۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ مجھے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28) 3۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (فاطر :37) 4۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون :107) 5۔ جہنمیوں سے ملائکہ کا خطاب۔ (الزمر : 71، 72) 6۔ جہنمیوں سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمی اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے۔ (المدثر : 40تا48) 7۔ جہنمیوں سے اللہ تعالیٰ کا سوال۔ (الصّٰفٰت :5) 8۔ جہنمیوں کی باہم گفتگو۔ (الصّٰفّٰت : 27تا33)