سورة ص - آیت 34

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلا شبہ یقیناً ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور اس کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا، پھر اس نے رجوع کیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت34سے35) ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دوسرا واقعہ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی آزمائش کے لیے بہت سے طریقے ہیں جن میں دو بڑے طریقے یہ ہیں۔ کبھی اپنے بندے کو نعمت دے کر آزماتا ہے اور کبھی اس سے نعمت چھین کر آزمائش کرتا ہے۔ پہلے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) کو گھوڑوں کے ذریعے آزمایا گیا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے۔ اس واقعہ میں ان سے نعمت چھین کر آزمایا گیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالا اور کرسی پر ایک جسد ڈال دیا۔ اس حال میں سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا اور دعا کی کہ اے میرے رب مجھے معاف فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توہی عطا فرمانے والا ہے۔ کچھ مفسرین نے حضرت سیلمان (علیہ السلام) کی دعا کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ایک پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ وہ اقتدار کی خواہش کرے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ کسی شخض کے سامنے منصب اور اقتدار کی خواہش کرنا جائز نہیں اور نہ ہی پیغمبر کی یہ شان ہے کہ وہ منصب اور اقتدار کے لیے کوشش کرے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اقتدار کی خواہش کا اظہار کسی انسان کے سامنے تو نہیں کیا۔ انہوں نے اقتدار کی خواہش اور دعا اپنے رب کے حضور کی ہے جس سے ہر وقت اور ہر چیز کا سوال کیا جاسکتا ہے۔ وہی اقتدار اور سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔ اس کے بغیر تو کہیں سے کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے وقت کے نبی تھے۔ ان سے بڑھ کر کس کی خواہش ہوسکتی ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو اور لوگ خوشحال ہوں۔ ظاہر بات ہے کہ انہوں نے دین کے غلبہ اور لوگوں کی فلاح کے لیے ہی اللہ کے حضور یہ درخواست کی تھی کہ مجھے ایسا اقتدار نصیب فرما جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ جہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کا معاملہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک ناقص جسد رکھ دیا۔ اس آزمائش کے بارے میں مفسرین نے تین قسم کی تفسیر کی ہے۔1 ۔حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس بنا پر وہ جن و انس، پرندوں اور ہواؤں پر کنٹرول کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انگوٹھی گم ہوگئی جو شیطان کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شیطان حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل اختیار کرکے کچھ دن ان کی کرسی پر براجمان ہو کر حکومت کرتا رہا لیکن اس کی عادتیں دیکھ کر لوگوں کو شک پڑا کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) نہیں ہیں۔ پھر کسی طریقہ سے انگوٹھی سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ آئی اور وہ دوبارہ حکومت کرنے لگے۔2 ۔حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک دن اپنے دل میں یہ بات کہی کہ میں ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں سے جماع کروں گا۔ ان سے بیٹے پیدا ہوں گے جو میدان کارزار میں میرے شانہ بشانہ ہو کر جہاد کریں گے۔ لیکن یہ بات کہتے ہوئے ان شاء اللہ کہنا بھول گئے انہوں نے حسب ارادہ اپنی تمام بیویوں سے جماع کیا جن کی تعداد ستر سے زائد تھی ایک کے سوا کوئی بیوی بھی حاملہ نہ ہوئی جس نے بچہ جنم دیا وہ بھی ناقص الوجود تھا جسے ملازم نے اٹھا کر کرسی پر رکھ دیا۔ جہاں تک بیویوں کے ساتھ ہم بستری کا معاملہ ہے اس سے بعض مفسرین نے یہ بات سمجھ لی کہ یہ حدیث اسی آیت کی تفسیر ہے اس لیے انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس آیت میں جس جسدِناقص کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی واقعہ ہے حالانکہ محدثین کے سرخیل حضرت امام بخاری (رح) نے کتاب التفسیر میں اس آیت کے ضمن میں یہ حدیث نقل نہیں کی۔ جہاں تک کثرت ازواج کا معاملہ ہے پہلے زمانہ میں لوگ اس قابل ہوتے تھے کہ وہ بیک وقت اتنی بیویوں کے حقوق ادا کرلیں۔ اس ضمن میں کئی غیرمسلم حکمرانوں کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن نزول قرآن کے بعد یہ پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی آدمی بیک وقت چاربیویوں سے زائد بیوی نہیں رکھ سکتا اگر اس میں غیر معمولی طاقت ہو تو وہ شریعت کے اصول و ضوابط پورے کرتے ہوئے چار بیویوں کے ساتھ لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ ایک رات میں بیویوں کے ساتھ جماع کرنے کے بارے میں کچھ لوگوں نے اس بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جس وجہ سے انہوں نے مستند حدیث کو ماننے سے انحراف کیا ہے۔ حالانکہ وہ بھی مانتے ہیں کہ پیغمبر میں عام لوگوں کی نسبت غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مختلف قسم کے معجزات سے سرافراز فرمایا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات بھی معجزات میں شامل ہو۔ 3 ۔امام رازی (رض) نے یہ تفسیر کی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک دفعہ شدید بیمار ہوئے جس وجہ سے وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے اس حالت میں اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ بار الہا! مجھے ایسا اقتدار نصیب فرما جو میرے بعد کسی کو نہ مل سکے۔ اس دعا کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت اور ایسا اقتدار عنایت کیا جو قیامت تک کسی شخص کو حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری تفاسیر کی نسبت امام رازی (رض) کی تفسیر صائب لگتی ہے۔ اللہ اعلم یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد : یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی جس کی ابتدا میں کفار کی منفی سوچ اور سر گرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جونہی نبی آخر الزمان (ﷺ) نے ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ “ کی دعوت پیش کی تو مکہ کے سرداروں نے کہا کہ اے لوگو! اپنے اپنے خداؤں پرجمے رہنا یہ شخص جادو گر اور جھوٹا ہے اس لیے ہمیں اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی ہم نے اس سے پہلے کبھی یہ بات سنی ہے۔ اس طرح مکہ میں حق و باطل کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دونوں واقعات سے نبی (ﷺ) کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کو یہ فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ میرے پاس اقتدار اور وسائل ہوتے تو کفار یہ رویہ اختیار نہ کرتے۔ اے محبوب (ﷺ) ! لازم نہیں کہ کسی مبلّغ کے پاس اقتدار اور اختیارہی ہو تو وہ کامیاب ہو۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ” اللہ“ کے نبی ہونے کے ساتھ بے مثال حکمران بھی تھے لیکن ان کے دور میں بھی تمام لوگوں نے ان کا کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ (البقرۃ:103) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی جس میں انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور پورے اترے۔ 2۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے آزمائش کے وقت اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی۔ 3۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی اقتدار کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز عطا فرمانے والا ہے : 1۔ اللہ ہی خلافت عطا کرتا ہے۔ (الانعام : 133، الاعراف :129) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء :125) 3۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 4۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص :35) 5۔ ادریس (علیہ السلام) کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم :57) 6۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص :20) 7۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: 12تا14) 8۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (النساء :171) 9۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور انتہا درجہ کی پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف :31) 10۔نبی (ﷺ)کو رحمت للعالمین بنایاگیا(الانبیاء:107)