جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ
(یہ) ایک حقیر سا لشکر ہے، لشکروں میں سے، جو اس جگہ شکست کھانے والا ہے۔
فہم القرآن:(آیت11سے16) ربط کلام : فرعون اور اس سے پہلی اقوام پر اس لیے عذاب آئے کہ وہ اپنے انبیاء کی تکذیب کرنے والے تھے۔ اہل مکہ ! تم بھی وہی وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہو جب کہ تم ایک جھٹکے کی ما رہو اور ناکامی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل سے مکہ والے اس قدر دلیر ہوچکے تھے کہ وہ نبی (ﷺ) کو بار بار کہتے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ یہ عذاب کیوں نہیں آتا ؟ وہ لوگ تمرد میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ ایک دن اپنے لیے ان الفاظ میں بد دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب قیامت کی بجائے دنیا میں ہی ہمارا حساب چکادے۔ انہوں نے اس طرح بھی دعا کی کہ ” کافروں نے کہا کہ اللہ اگر یہ قرآن حقیقت میں تیری طرف سے ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دکھ کی مار نازل کر دے۔“ (الانفال :32) انہیں ایک بار پھر سمجھایا اور موقعہ دیا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بداخلاقی اور بغاوت کی تمام حدودپھلانگ چکے۔ مگر سوچ لو! کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت نازل ہوگی تو پھر اس میں نہ کوئی وقفہ ہوگا اور نہ ہی مہلت دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں محمد (ﷺ) کی صداقت پر شک نہیں۔ انہیں تو یہ شک ہے کہ اس غریب اور یتیم پر وحی کیوں نازل ہوئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں میری قدرت اور انتخاب پر شک کرتے ہیں۔ یہ شک کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کا تکبرچھپا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک بیت اللہ کے پڑوسی اور متولی ہونے کی وجہ سے میری نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جوں ہی میرا عذاب انہیں آلے گا تو ان کا سارا غرورخاک میں مل جائے گا۔ یا پھر ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں کہ یہ جسے چاہیں عنایت کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں؟ یہ اس قدر تکبر کا اظہار کرتے ہیں کیا انہیں زمین و آسمان کی بادشاہت حاصل ہے ؟ کہ جب چاہیں آسمان پر چڑھ جائیں اور جب چاہیں زمین کے خزانے نکال لائیں ؟ ظاہر بات ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ البتہ یہ بزعم خود اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ قوم نوح کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہی ان کی حالت قوم عاد کے مقابلے میں ہے۔ قوم ثمود اور قوم شعیب اہل مکہ سے تعداد اور اسباب میں زیادہ تھیں لیکن جب ربِّ ذوالجلال نے گرفت فرمائی تو انہیں کوئی بچانے اور چھڑانے والا نہ تھا۔ جہاں تک فرعون کا معاملہ ہے وہ اتنے بڑے لاؤ لشکر رکھنے اور ظلم کرنے والا تھا کہ اپنے مخالفوں کو زمین پر لٹاکر ان پر میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔ مظلوم سسکیاں لے لے کر مر جاتے لیکن اسے تر س نہیں آیا کرتا تھا۔ جب اس پر اللہ کی گرفت آئی تو دہائی دیتا رہا ہے کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہاورن (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کا ایمان مسترد کردیا گیا۔ (یونس:،90، 91) اس موقعہ پر اہل مکہ کے سامنے فرعون اور بڑی بڑی اقوام کا ذکر کرکے انہیں بتلایا گیا ہے کہ سمجھ جاؤ اب بھی موقعہ ہے ورنہ جس عذاب کا تم باربار مطالبہ کرتے ہو جب وہ آجائے گا تو آہ وزاریاں کر وگے لیکن بے سود ثابت ہوں گی۔ اس کے ساتھ نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے کہ اطمینان خاطر رکھو۔ اللہ کے ہاں نہ دیر اور نہ اندھیر ہے جب مقررہ وقت آپہنچے گا تو آپ کے مخالفوں کا پورا پورا حساب چکا دیا جائے گا جس طرح فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حساب چکایاجا چکا ہے۔ مسائل: 1۔ اہل مکہ غرورکی بنیاد پر آپ (ﷺ) کی نبوت پر شک کرتے تھے۔ 2۔ اہل مکہ اپنے سے پہلی اقوام سے بڑھ کر نہیں تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے تکبر کی انتہا کردی تھی۔