وَإِن كَانُوا لَيَقُولُونَ
اور بے شک وہ (کافر) تو کہا کرتے تھے۔
فہم القرآن:(آیت167سے173) ربط کلام : اہل مکہ اور دیگر لوگوں کا دعویٰ۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اہل مکہ کے پاس براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ جس بنا پر اہل مکہ اپنے آپ میں یہ کمی محسوس کرتے اور کہتے تھے کہ کاش ! ہمارے ہاں بھی کوئی نبی مبعوث کیا جاتا۔ جس کی اتّباع کرکے ہم دوسری اقوام بالخصوص اہل کتاب پر برتری حاصل کرلیتے اور اللہ کے مخلص بندے بن جاتے۔ اس خواہش اور نبی (ﷺ) کو پہنچاننے کے باوجود یہ لوگ انکار کیے جا رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہر صورت ان کی مدد کرے گا۔ جس بنا پر وہ اپنے مخالفوں پر غالب آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ” اللہ“ کی فوج ہی غالب آیا کرتی ہے۔ چنانچہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک تمام غزوات کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب ہمیشہ کفار پر غالب رہے۔ (اُحد میں پہلے غالب رہے اور بعد میں نقصان اٹھانا پڑا۔) یہاں تک مسلمانوں کی کامیابی کا تعلق ہے۔ آپ (ﷺ) کے بعد بھی تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا میں واحد اخلاقی، سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر تسلیم کیے جاتے رہے۔ کفر پر غالب آنے کا اہل علم نے دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ مخالف جو چاہیں اور جس قدر چاہیں دین اسلام کی مخالفت کریں۔ لیکن وہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر دلائل کی بنیاد پر کبھی غالب نہ آسکیں گے۔ کیونکہ اسلام غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔ اگر کوئی حکمران خلوص نیت اور جرأت کے ساتھ اسلام کو اس کے تقاضوں کے ساتھ نافذ کرے گا تو اسلام کا نظام کامیاب ہوگا یہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ ﴿کَتَبَ اللّٰہُ لاََغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾[ المجادلۃ:21] ” اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے، بے شک اللہ تعالیٰ طاقت ور اور زور آور اور زبردست ہے۔“ (اَلْاِسْلَامُ یَعْلَمُوْ وَلَا یَعْلیٰ) [ صحیح البخاری :باب اذاأسلم الصبی] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ مسائل: 1۔ اہل مکہ نبی اکرم (ﷺ) کی آمد سے پہلے آپ کی نبوت کے منتظر تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں سے وعدہ کیا کہ وہ غالب آئیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی فوج ہی ہمیشہ غالب آیا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: دین حق اور رسولوں کے غالب آنے کا وعدہ : 1۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح :28) 2۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ:193) 3۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران :160) 4۔ اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 5۔ اگر تم ” اللہ“ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ (محمد :7) 6۔” اللہ“ کی فوج ہی غالب آیا کرتی ہے۔ ( المائدۃ:56) 7۔ کتنی قلیل جماعتیں ” اللہ“ کے حکم سے غالب آئیں۔ ( البقرۃ:249) 8۔ ” اللہ“ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلۃ:21)