يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا مانو گے، جنھیں کتاب دی گئی ہے، تو وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 100 سے 101) ربط کلام : پہلی آیت میں اہل کتاب کو اسلام کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے۔ اب مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ اہل کتاب کی پیروی نہ کرنا یہ تمہیں گمراہ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ اگر تم اہل کتاب کو راضی کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ تمہیں ایمان سے منحرف کر کے کافر بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا میرے پیغمبر! جب تک آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں گے تب تک یہ آپ پر بھی راضی نہ ہوں گے۔ [ البقرۃ:120] اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تم کس طرح اپنے لیے کفر کا جواز پیدا کرو گے ؟ جبکہ رسول مکرم (ﷺ) جیسا عظیم رہنما اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کر کے تمہارے سامنے بہترین نمونہ پیش کرتا ہے جس سے تم براہ راست تربیت پا رہے ہو۔ لہٰذا تمہیں اہل کتاب کو راضی کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ سے ایمان کا رشتہ مضبوط کرلیا یقیناً وہی صراط مستقیم پائے گا۔ مسائل : 1۔ ایمان داروں کو یہود ونصاریٰ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 2۔ یہود و نصاریٰ لوگوں کو مرتد کرنا چاہتے ہیں۔ 3۔ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے مسلمان کو کافر ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاناصراط مستقیم پرچلنا ہے۔