وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا۔
فہم القرآن:(آیت114سے122) ربط کلام : حضرت موسیٰ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنے سے پہلے ارشاد ہوا۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر بہت احسان فرمایا جس کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو بڑی مصیبت سے نجات دی۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی جس بنا پر وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے۔ ہم نے انہیں کھلی کتاب سے سرفراز کیا اور ہم نے دونوں کی ٹھیک ٹھیک راہنمائی کی اور ہم نے ان کی سیرت اور جدوجہد کو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر ہمیشہ ہمیش ” اللہ“ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ ہم اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے باربار اپنے لیے ” ہم“ یعنی جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جس میں جلال اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ بے شک فرعون بڑا ظالم اور جابر حکمران تھا اور بنی اسرائیل بہت کمزور تھے۔ لیکن جب ہم نے فرعون کو ذلیل کرنے اور بنی اسرائیل کی مدد کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ہمارے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سے سرفراز فرمایا تھا۔ جس میں قدم قدم پر ان کی راہنمائی کی گئی اور انہیں صراط مستقیم پر چلنے کی ہمت اور توفیق عنایت فرمائی۔ قوموں کی راہنمائی کے لیے یہی دوبنیادی اصول ہیں جو قوم کتاب اللہ سے راہنمائی پائے اور اس کا قائد باکردار اور بہادر ہو تو وہ قوم دنیا میں ضرور کامیاب ہوتی ہے اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والی جنت میں داخل ہوگی۔ سرور دوعالم (ﷺ) نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ) [ روا ہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ وَبَیَانِ صِفَتِہِ] ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور پھر یہ دعا پڑھتے۔ ” اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَام “ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر بڑا ہی احسان فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو بڑی طویل اور کربناک آزمائش سے نجات عطا فرمائی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی اور دونوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔ 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ ہمیش رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو اس طرح ہی جزا دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دنیا و آخرت کی جزا سے سرفراز فرمایا : 1۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : 13۔14) 2۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف :64) 3۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا ء:65) 4۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود :94)