قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ
انھوں نے کہا اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو۔
فہم القرآن:(آیت97سے98) ربط کلام : قوم کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف فیصلہ۔ ﴿قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ۔ قَالُوْا فَأْتُوْا بِہِ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ﴾ [ الانبیاء : 59تا61] ” کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ جس نے یہ زیادتی کی ہے واقعتا وہ بڑا ظالم شخص ہے (مجمع سے آواز آئی) ہم نے سنا ہے ایک نوجوان ان بتوں کے خلاف گفتگو کرتا ہے۔ اس کا نام ابراہیم ہے۔ سردار کہنے لگے اس کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ لوگ بھی اس کی شکل دیکھ لیں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع میں بلانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام بھی گواہ اور مطمئن ہوجائیں کہ جو سزا اس کو دی جا رہی ہے واقعی یہ اسی سزا کا مستحق ہے۔ ” کہنے لگے اگر کچھ کر گزرنا چاہتے ہوتواسے زندہ جلا دو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔۔“ [ الانبیاء :68] امن عامہ کے تحت گرفتاری : حکمران نے فوراً حکم دیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا بالفاظ دیگر عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوئے کہ اسکو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کر ابراہیم (علیہ السلام) کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذ بات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر میری فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں پھینکوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے۔ عراق میں آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جب آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی بڑی آگ میں کس طرح پھینکا جائے۔ شاہی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کس طرح پھینکا جاۓ ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی کرین تیار کی جائے جس کے ذریعے ابراہیم کو آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح کیا گیا ( اس تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جاۓ گا۔) (تفسیر ابن کثیر سورۃ الانبیاء :68) آز مائش کے آخری لمحات اُف خدا یا یہ کیسا منظر ہے جو آج تک تیرے فرشتوں نے بھی نہیں دیکھاہو گا نظر اٹھائی تو جبرا ئیل (علیہ السلام) نمو دار ہوئے۔ روح الا مین عرض کرتے ہیں جناب میں حا ضر ہوں کوئی خد مت ہو تو فرمائیں ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کو رب العزت کی طرف سے کوئی حکم ہے جبریل (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ فرمایا پھر جا میں مجھے آپ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ الانبیاء :68) ابرا ہیم (علیہ السلام) نے ” حَسْبِیَ اللّٰہُ“ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا۔ اب کا رروائی زمین پر نہیں عرش پر ہوگی۔ ﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ﴾[ الطلاق :3]” جس نے اللہ پر توکل کیا اللہ اسے کافی ہوگا۔“ اب دیکھیے ادھر حاکم وقت کا اشارہ ہوا کہ پھینک دو، کرین کا بٹن دبادیا گیا۔ مجمع سے آواز آتی ہے اچھاہو تا اگر معافی مانگ لیتا خو اہ مخواہ جان گنوائی۔ انہیں کیا خبر آسما نوں میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بارش کافر شتہ ہمہ تن گوش تھا کہ کب حکم ہو اور میں اتنی بارش کروں کہ ایک لمحہ میں آگ بھسم ہو کر رہ جائے۔ لیکن فرشتے کی بجائے آج حکم بر اہ راست آگ کو پہنچتا ہے : ﴿قُلْنَا یَا نَارُکُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیمَ ﴾[ الانبیاء :69] ” ہم نے حکم دیا اے آگ ابر اہیم کے لئے ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا۔“ تفسیر ابن ابی حا تم میں ہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) چا لیس دن تک آگ میں رہے۔ ابرا ہیم (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جتنا آرام میں نے چالیس دن آگ کے اندر پا یا ساری زندگی اتنا آرام میسر نہیں آیا۔ (تفسیر ابن کثیرسورہ الانبیاء :69) یاد رہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو آگ میں برہنہ کرکے پھینکا گیا تھا۔ اسی لئے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : (أَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیمُ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَاتَّخَذَ اللَّہُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلاً﴾ ] ” قیا مت کے دن جس خوش نصیب کو سب سے پہلے جنت کا لباس پہنا یا جاۓ گا وہ ابرا ہیم (علیہ السلام) ہوں گئے۔“