إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت بابرکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
فہم القرآن : (آیت 96 سے 97) ربط کلام : یہود و نصارٰی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر نہیں کیا تھا جس کی یہاں بھرپور طریقہ سے تردید کی گئی ہے۔ یہودی یہ دعو ٰی بھی کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی بجائے پہلے بیت المقدس تعمیر کیا اور یہی ان کا قبلہ تھا۔ اے نبی! آپ یہ اعلان فرمائیں کہ دنیا میں سب سے پہلے لوگوں کے لیے جو گھر تعمیر ہوا وہ مکہ معظمہ میں بیت اللہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے ہدایت کا مرکز قرار دیا اور اس میں بے پناہ برکات رکھی ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْأَرْضِ أَوَّلَ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْأَقْصٰی قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَھُمَا قَالَ أَرْبَعُوْنَ سَنَۃًثُمَّ أَیْنَمَا أَدْرَکَتْکَ الصَّلَاۃُ بَعْدُ فَصَلِّہٖ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ إبراھیم خلیلا] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! روئے زمین پر کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا مسجد حرام۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر کونسی ؟ آپ نے جواب دیا پھر مسجد اقصیٰ۔ میں نے ان دونوں کے درمیان مدت کے بارے میں پوچھا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ان دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ پھر فرمایا جہاں بھی تو نماز کا وقت پائے وہاں نماز پڑھ لے کیونکہ یہی افضل ہے۔“ مفسرین نے بیت اللہ اور بیت المقدس کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کو آدم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ طوفان نوح کے بعد اس کے نشانات معدوم ہوگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کی نشاندہی پر بیت اللہ تعمیر فرمایا۔ جہاں تک بیت المقدس کی تاریخ ہے اس کی پہلی تعمیر حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے فرمائی بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں انہیں بنیادوں پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کیا۔ نبی محترم کے ارشاد کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فرق ہے۔ اس لحاظ سے یہودیوں کا بیت المقدس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ قرار دینا سراسر خلاف حقیقت ہے۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جس شہر میں اللہ کا گھر تعمیر کیا تھا اس کا نام ” بکہ“ ہے بکہ مکہ معظمہ کا قدیمی نام ہے۔ تاریخ میں اسے مکہ اور بکہ دونوں طرح ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن میں ” بکہ“ اور حدیث میں اس کا نام ” مکہ“ آیا ہے۔ اس جہان رنگ وبو میں بے شمارعمارات ومحلاّت خوبصورت سے خوبصورت ترین موجود ہیں جن کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لگائے گئے اور مزید خرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کو دیکھیں تو عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں یہ اکرام ومقام صرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ رب العزّت نے جس کو بیت اللہ قرار دیا۔ یہی لوگوں کی ہدایت کا مرکز اور بابرکت گھر ہے۔ اسی کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں کھڑے ہو کر دعائیں مانگی تھیں اور یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر قرآن مجید کے نزول کا آغاز فرمایا تھا۔ یہی گھر بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ آج بھی اس گھر کی عظمت و فضیلت دیکھ کر ہزار ہا لوگ ہر سال ہدایت کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس میں مقام ابراہیم ہے اور ہر دور میں لوگوں کو اس میں امن ملتا رہا اور قیامت تک اسی طرح ہی ملتا رہے گا۔ کائنات میں صرف یہی گھر ہے جس کی زیارت کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اس کی زیارت کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود اس گھر کی زیارت نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور ایسے شخص کو کافر قرار دیا ہے۔ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ مَّلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ إِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ أَنْ یَّمُوْتَ یَہُوْدِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا وَذٰ لِکَ أنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ فِیْ کِتَابِہٖ ﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾) [ رواہ الترمذی : ابواب الحج، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج] ” حضرت علی (رض) رسول کریم (ﷺ) کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ جس کے پاس بیت اللہ پہنچنے کے لیے زاد راہ اور سواری ہو۔ پھر بھی وہ حج نہیں کرتا تو اللہ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ صاحب استطاعت لوگوں پر حج کرنا لاز م ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ أَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوْا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَھَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْوَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الحج] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو! یقینًا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تم حج کرو۔ ایک آدمی نے اٹھ کر سوال کیا۔ اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج کرنا ہوگا؟ نبی (ﷺ) خاموش رہے حتی کہ اس نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا۔ پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔ تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں۔ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں سے اختلاف اور کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو حسب ہمت وہ کام کرو اور جس چیز سے تمہیں روکوں اسے چھوڑ دو۔“ مسائل : 1۔ سب سے پہلے مکہ میں بیت اللہ تعمیر ہوا۔ 2۔ بیت اللہ بابرکت اور لوگوں کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ 3۔ مکہ معظمہ کا پرانا نام بکہ ہے۔ 4۔ بیت اللہ میں مقام ابراہیم ہے۔ 5۔ بیت اللہ میں داخل ہونے والے کو امن نصیب ہوتا ہے۔ 6۔ صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ 7۔ جو حج سے بے پروائی کرے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تفسیربالقرآن : بیت اللہ کی عظمت : 1۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران :96) 2۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ:125) 3۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش :1) 4۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم ہوا ہے۔ (الحج :29) 5۔ پیدل اور سوار دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج :27)