سورة آل عمران - آیت 90

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر کفر میں بڑھ گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور وہی لوگ گمراہ ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 90 سے 91) ربط کلام : توبہ اور اصلاح کا موقعہ ملنے کے باوجود جو لوگ کفر و شرک پر ہیں۔ ان کے بارے میں حتمی سزا کا اعلان۔ بلا شبہ جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور پھر اپنی اصلاح اور ایمان کی طرف پلٹنے کی بجائے کفر میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور یہی لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اسی حالت میں موت آگئی تو ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے زمین بھر سونا بھی پیش کریں تو وہ قبول نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان کے پاس اچھے یابرے اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود یہاں فدیہ کی بات ہورہی ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ مرنے کے بعد کچھ ہوگا نہ ہی یہ لوگ عذاب سے نجات پائیں گے اور نہ ہی ان کا کوئی حامی ومدد گار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَاابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ خَیْرُ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ سَلْ وَتَمَنَّ فَیَقُوْلُ مَا أَسْأَلُ وَأَتَمَنّٰی إِلَّا أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَایَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّھَادَۃِ وَیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرُّّ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق] ” رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا ایک جنتی کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا اے ابن آدم تو نے اپنا مقام کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بہترین رہنے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کسی اور تمنا کا اظہار کر۔ وہ عرض کرے گا نہ میری کوئی تمنا ہے نہ سوال سوائے اس کے کہ آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیں میں تیری راہ میں دس مرتبہ شہید کردیا جاؤں یہ شہادت کی فضیلت کی وجہ سے تمنا کرے گا۔ پھر ایک جہنمی آدمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بدترین ٹھکانا ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر سونا فدیہ کے طور پر دے گا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا۔ پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَافِی الْأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ أَرَدْتُّ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَّاتُشْرِکَ بِیْ شَیْئًا فَأَبَیْتَ إِلَّآأَنْ تُشْرِکَ بِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا ایک جہنمی آدمی سے روز قیامت کہا جائے گا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے تو وہ جہنم کے عذاب کے بدلے فدیہ دے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تو تجھ سے اس سے ہلکی اور کم چیز کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے تیرے باپ آدم کی پشت میں عہد لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا لیکن تو نے انکار کیا اور میرا شریک ٹھہرایا۔“ مسائل : 1۔ حالت ارتداد پر قائم رہنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ 2۔ کفر کی حالت میں مرنے والے کی معافی نہیں۔ تفسیربالقرآن : قیامت کو کفار سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا : 1۔ قیامت کو کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ:123) 2۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہ کیا جائے گا۔ (آ ل عمران :85) 3۔ جہنمیوں سے زمین کے برابر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران :91) 4۔ قیامت کے دن ایمان لانا نفع بخش نہ ہوگا۔ (الانعام :158) 5۔ دوستیاں کام نہ آئیں گی۔ (البقرۃ:254) 6۔ خرید وفروخت کا موقعہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ:254)