إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کے لیے توبہ کی گنجائش اور توبہ کرنے پر مہربانی کا وعدہ۔ توبہ کا معنٰی پلٹنا ہے جس سے مراد آدمی کا اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ یہ شخص اپنے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے الگ اور اس کی رحمت سے دور ہوگیا تھا۔ اب یہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہے اور اس نے توبہ کی ایسے شخص کو تائب کہتے ہیں۔ جب لفظ توبہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر توجہ فرمائی۔ توبہ کی تکمیل کے لیے دو شرطیں ازحد ضروری ہوا کرتی ہیں۔ 1۔ سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا جسے قرآن و حدیث میں استغفار کہا گیا۔2 ۔دوسری شرط یہ ہے کہ آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرے کہ اِلٰہی آئندہ میں اس گناہ سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ ذاتی اصلاح کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے معاشرے میں جو گناہ پھیلاہے اس کی تردید اور اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے بھی کوشش کرتارہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ یقیناً اس کے گناہوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف فرمانے والا‘ نہایت مہربان ہے۔ مسائل : 1۔ توبہ اور اصلاح کرلینے والوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن : توبہ کی شرائط : 1۔ اعتراف جرم کے سبب توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ:37) 2۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ:39) 3۔ جہالت کے سبب گناہ کرکے اصلاح کرنے پر اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (الانعام :54) 4۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ (التوبۃ:27) 5۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ (آل عمران :135)