سورة يس - آیت 74

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے اللہ کے سوا کئی معبود بنا لیے، تاکہ ان کی مدد کی جائے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت74سے75) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو درکنار اکثر انسان اللہ تعالیٰ کو اعتقاداً اور عملاً الٰہ ہی نہیں مانتے۔ انسان کی اپنے رب کے بارے میں ناقدری اور بغاوت کی انتہا دیکھیں کہ کھاتا، پیتا، پہنتا اور نعمتیں اپنے رب کی استعمال کرتا ہے۔ جن میں بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جن کو کسی صورت میں بھی انسان اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان نعمتوں کو انسان کے تا بع فرمان نہ کرتا۔ جن میں چوپائے بھی شامل ہیں جو جسم اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے کئی گنا بڑے اور طاقتور ہیں۔ مگر وہ انسان کے غلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے مطیع کردیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق اور منعم حقیقی کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکتا اور نہ ہی کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا۔ مگر انسان نے اللہ تعالیٰ کے سوا کئی معبود اور مشکل کشا بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ان میں سے کوئی بڑا، نوری ہو یا ناری کوئی بھی انسان کی مدد نہیں کرسکتا۔ یہ تو سب کے سب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیے جائیں گے۔ ان الفاظ کے اہل علم نے دو مفہوم اور بھی لیے ہیں کہ معبودان باطل اور ان کی عبادت کرنے والوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کردیا جائے گا۔ معبودان باطل اور ان کے پیچھے لگنے والوں کو جہنّم میں ایک دوسرے کے سامنے حاضر کیا جائے گا۔ یہ ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ نہ صرف قیامت کے دن ایک دوسرے کی مدد نہیں کر پائیں گے۔ بلکہ دنیا میں بھی اس کی ہر دور میں مثالیں موجود رہی ہیں اور رہے گی کہ جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو وہ فرد ہویا قوم اسے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ود، سُواع، یغوث، یعوق اور نسر کو پنچتن پاک بنا رکھا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو کوئی بھی کسی کو نہیں بچا سکا تھا۔ فرعون اپنی قوم کا رب الاعلیٰ بنا ہوا تھا۔ جب وقت آیا تو سب کے سب سمندر میں غرق کردئیے گئے۔ ربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کرنے والا خود اپنی مدد کے لیے دوہائی دے رہا تھا۔ یہی صورتحال ہر دور کے ظالموں کی رہی ہے۔ ابوسفیان کا اقرار : فتح مکہ کے موقع پر ابوسفیان رات کے وقت مسلمانوں کے لشکر کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اس کی ملاقات حضرت عباس (رض) کے ساتھ ہوگئی رات کے اندھیرے میں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اس موقعہ پر دونوں کے درمیان اور باتیں بھی ہوئیں جن میں ایک بات یہ تھی کہ عباس (رض) نے ابوسفیان سے پوچھا کیا اب بھی تجھے یقین نہیں آتا کہ لات، عزیٰ اور ہبل کسی کی مدد نہیں کرسکتے۔ ابوسفیان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر واقعی ہبل اور دوسرے خدا مدد کرسکتے تو آج ہماری مدد کرتے۔ یہی بات عکرمہ بن ابوجہل نے فتح مکہ کے وقت کہی تھی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مشرک اس لیے دوسروں کے سامنے جھکتا، سجدہ کرتا اور نذرونیاز پیش کرتا ہے تاکہ مشکل کے وقت اس کی مدد کی جائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ 3۔ معبودان باطل اور ان کے چاہنے والوں کو جہنّم میں اکٹھا کردیا جائیگا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے : 1۔ جنوں اور انسانوں کو اللہ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (الذاریات :56) 2۔ تمام رسول، اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ (النحل :36) 3۔ اللہ ہی کے لیے رکوع و سجود اور ہر عبادت ہونی چاہیے۔ (الحج :77) 4۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء :36) 5۔ اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔ (الزمر :2) 6۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام :17) 7۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء :87) 8۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام :41) 9۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ (یونس :107) 10۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (بنی اسرائیل :56) 11۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے۔ (النمل :) 62 12۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا کوئی نقصان دور کرسکتا ہے؟ (الفتح :11) 13۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد :16) 14۔نبی کا اعلان کہ میں پنے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتا ۔(الجن:21)