وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
فہم القرآن: (آیت41سے44) ربط کلام : آفاق کی نشانیاں پیش کرنے کے بعد بحری نشانی کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ موجود رہے ہیں اور رہیں گے جو آمدروفت اور تجارت کی غرض سے بحری سفر اختیار کرتے ہیں۔ بحری سفر کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب وہ بھنور میں پھنستے ہیں تو صرف اور صرف ایک ” اللہ“ کو صدائیں دیتے ہیں۔ لیکن ساحل سمندر پر پہنچ کر شر کیہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ کوئی خضر (علیہ السلام) کو نجات دہندہ قرار دیتا ہے اور کوئی بہاول حق کا نام لیتا ہے۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کی کشتی کا اشارتاً ذکر فرما کر مشرکوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کی طرف دیکھیے جو ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ جب ان کا واسطہ ایسے طوفان کے ساتھ پڑا جس کی لہریں بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھیں، اوپر سے موسلا دھار بارش برس رہی تھی اور نیچے سے زمین سے چشمے جاری تھے۔ ایک طرف مشرک ڈبکیاں لے رہے تھے اور دوسری طرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کشتی پر بیٹھے ہوئے اپنی قوم کا انجام دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی کشی کے ذریعے مومنوں کو نجات دی اور مشرکوں کو ڈبکیاں دے دے کر ذلت آمیز موت کے منہ دھکیل دیا۔ نہ صرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی روحانی اولاد کو طوفان باد و باراں سے نجات بخشی بلکہ لوگوں کو کشتی بانی کے ہنر سے بھی سرفراز فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سمجھ بھی عطا فرمائی کہ وہ نقل و حمل کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرے جس میں ہر دور کے ذرائع شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ فہم کا نتیجہ ہے کہ انسان نے اپنی زبان سے نکلی ہوئی آواز سے زیادہ تیز رفتار جہاز تیار کرلیے ہیں۔ نہ معلوم کہ قیامت تک مزید کون کون سی تیز رفتار سواریاں معرض وجود میں آئیں گی۔ ذرائع آمدروفت کی نئی نئی ایجادات کا اشارہ دے کر ایک دفعہ پھر بحری سفر کرنے والوں کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں غرق کرنے پر آجائے تو زمین آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ڈوبنے والوں کو بچا سکے۔ پھر بھی مشرک شرک کرنے سے باز نہیں آتے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے جس میں نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی سوار تھے۔ کیونکہ ان کے سوا باقی لوگوں کو غرق کردیا گیا تھا۔ اس لیے بعد کے لوگ انہی کی اولاد میں سے ہیں جن کے لیے ” ذُرِّیَّتَھُمْ“ کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے حضرات زیادہ تھے جس بنا پر ” ذُرِّیَّتَھُمْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو طوفان سے نجات بخشی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نقل و حمل کے لیے بہترین سواریاں بنانے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مشرکوں کو سمندر میں غرق کر دے لیکن وہ اپنی رحمت سے لوگوں کو نجات اور مہلت دیتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی کو غرقاب کرنا چاہے تو زمین و آسمان میں اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں کشتیوں کا تذکرہ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم :32) 2۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس :44) 3۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت :65) 4۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز مسخر کردی، اور کشتیاں دریاؤں میں اسی کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج :65) 5۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کشتیاں سمندروں میں اللہ کے فضل سے چلتی ہیں۔ (لقمان :31) 6۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے رواں دواں ہوں۔ (الجاثیہ :12)