يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
ہائے افسوس بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا رہا مگر وہ اس کے ساتھ ٹھٹھا کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن: (آیت30سے32) ربط کلام : تباہ ہونے والی اقوام کا انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ سلوک اور ان کا انجام۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ” اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْن“ ہے اس لیے اپنے بندوں کو باربار موقعہ اور مہلت دیتا ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی سے باز آجائیں لیکن جب کوئی قوم اور لوگ تمرد اور سرکشی کی انتہا کردیتے ہیں تو پھر زمین کا نظام چلانے اور اسے متوازن رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ جس میں ایک طرف ظالموں کو کیفرِکردار تک پہنچانا مطلوب ہوتا ہے اور دوسری طرف حق والوں اور مظلوموں کی مدد کرنا مقصود ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی شفقت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ظالموں پر افسوس ! کہ وہ اپنے سے پہلی اقوام کا انجام دیکھنے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اپنی تباہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے پاس جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آیاتو انہوں نے اس کی دعوت پر غور کرنے کی بجائے اسے استہزا کانشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ذلت کی موت مارا اور قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ جب یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے تو اس وقت افسوس کا اظہار کریں گے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے لیکن آج ہمیں اپنے اپنے اعمال نامے کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ اس پر وہ اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور حسرت کا اظہار کریں گے کہ کا ش! ہم انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے اور اس انجام سے بچ جاتے۔ قیامت کے دن آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گھڑی ہوگی اور ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا۔ (الجاثیہ :28) جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم اکٹھا کریں گے اس دن آنکھیں پیلی ہوچکی ہوں گی۔ ( طٰہٰ:102) ﴿وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاء بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلائِكَةُ تَنزِيلاالْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًاوَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلايَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلانًا خَلِيلا﴾ (الفرقان : 25، 28) ” اس دن آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل ظاہر ہوگا اور فرشتے گروہ درگروہ اتاردیے جائیں گے۔ اس دن حقیقی بادشا ہی صرف الرّحمان کی ہوگی وہ دن منکرین کے لیے بڑاسخت ہوگا۔ ظالم انسان اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا ہائے میری کم بختی۔ کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ” جس دن روح القدس اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے کوئی بات تک نہ کرسکے گا مگر جس کو الرّحمن اجازت دے گا اور وہ ٹھیک ٹھیک بات کہے گا۔ یہی وہ دن ہے جس کا آنا برحق ہے پھر جس کا جی چاہے وہ اپنے مالک کے پاس ٹھکانہ بنا لے۔ ہم نے تم کو اس عذاب سے ڈرایا ہے جو نزدیک ہے جس دن آدمی اپنے کیے ہوئے اعمال کو دیکھے گا اور کافر کہے گا کاش! میں مٹی بنا رہتا۔“ (النبا : 38تا40) مسائل: 1۔ بے شمار اقوام نے اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ 2۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کا بدترین انجام ہوا۔ 3۔ نیک و بد نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن: بڑی بڑی اقوام کی تباہی : 1۔ ہم نے ان سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں بہت آگے تھے۔ (مریم :74) 2۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق :36) 3۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا۔ (القصص :78) 4۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام :6) 5۔ قوم لوط کو آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ ( ھود :82) 6۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس :13) 7۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف :35) 8۔ قوم نوح سیلاب کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 9۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح :23) 10۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھی۔ (الاعراف :81) 11۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : 84، 85)