سورة يس - آیت 22

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور مجھے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت22سے25) ربط کلام : مضافات شہر سے آنے والے صالح انسان کا اپنی قوم کو خطاب جاری ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اور ان کی اتباع کی تلقین کرنے کے بعد صالح انسان نے اپنا عقیدہ قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس کیا عذر ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں ؟ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم نے بھی لوٹ کرجانا ہے کیا میں اسے چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لوں جبکہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی انسان کے نفع ونقصان کا مالک ہے۔ اگر رب رحمن میرے نقصان کا فیصلہ کرے تو جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی سفارش نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی یہ کسی مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں اگر میں انہیں عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھوں تو میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ میں اس رب پر ایمان لایا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس لیے میری بات پر توجہ فرماؤ۔ اس صالح انسان نے اپنے خطاب میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو انسان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پوری کائنات اور انسان کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہر انسان یہ بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ہر کوئی مانتا ہے کہ نفع و نقصان اللہ کے اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں یہی شرک کی بنیاد ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہیں کہ ان کی سفارش کو اللہ تعالیٰ مسترد نہیں کرسکتا۔ اس باطل عقیدہ کی تردید اور مشرک کی تیز مزاجی کو سمجھتے ہوئے مخاطب کی ضمیر استعمال کرنے کی بجائے صالح اور سمجھ دار مبلّغ نے اپنے آپ کو خطاب کیا اور دوسروں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر ربٍ رحمٰن مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو تمہارے سفارشی مجھے چھڑا اور بچا نہیں سکتے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بڑا ہی گمراہ کن عقیدہ ہے اگر میں اس عقیدہ کو اختیار کروں تو میرے گمراہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ جس رب نے مجھے اور تمہیں پیدا کیا ہے میں اس پر ایمان لایا اور تمہیں بھی اس بات کی دعوت دیتاہوں۔ اس دعوت پر توجہ فرماؤ تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کائنات اور انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ 2۔ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جسے مشکل میں مبتلا کرے اسے کوئی چھڑانے اور بچانے والا نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنا پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ 5۔ توحید کے مبلّغ کو اپنی دعوت سمجھداری کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : 1۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 2۔ ” اللہ“ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :61) 3۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل :62) 4۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل :63) 5۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65)