سورة يس - آیت 18

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمھیں سنگسار کردیں گے اور تمھیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت18سے19) ربط کلام : تین انبیائے کرام (علیہ السلام) کو قوم کی دھمکی اور الزام۔ بدبخت لوگوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنے کی بجائے انبیائے کرام اور مصلح حضرات کو طعن و تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہی کچھ اس شہر کے لوگوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ کیا۔ قوم انبیائے کرام (علیہ السلام) کو کہنے لگی کہ جب سے تم ہمارے شہر میں آئے ہو اس وقت سے لے کر ہم مسائل: اور مصائب کا شکار ہوئے جارہے ہیں۔ اگر تم اپنے کام سے باز نہ آئے تو ہم ہر صورت تمہیں سنگسار کرڈالیں گے اور تمہیں اذیت ناک سزا دیں گے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) نے جواباً فرمایا کہ جن مسائل: اور مصائب سے تم دوچار ہو یہ تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے۔ مگر افسوس ! تم سمجھنے اور سدھرنے کی بجائے ہمیں سنگسار کرنے کی سوچتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم شرافت کی تمام حدوں کو پھلانگ چکے ہو۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا یہ منطقی نتیجہ ہوتا ہے کہ جو قوم اپنے نبی کی نافرمانی پر تل جائے اسے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کے مقدر میں تباہی لکھی ہوتی ہے وہ اپنی اصلاح کی بجائے بگاڑ میں آگے ہی بڑھا کرتے ہیں اور اصلاح کرنے والوں کو اپنے انجام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہر پیغمبر کے ساتھ اس کی قوم کے فجار اور سرکش لوگوں نے یہی روّیہ اختیار کیا تھا۔ جہاں تک بد شگونی اور بری فال نکالنے کا تعلق ہے رسول اکرم (ﷺ) نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ ایک طرف انسان کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ اعصابی اور ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ مسند بزار:مسند عمران بن حصین(حسن)]ِ ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادو کرئے یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی ہے۔“ کیا کوئی چیز منحوس ہو سکتی ہے؟ ( قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَا عَدْوٰی وَلَا طِیرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔) [ رواہ البخاری : باب الْجُذَامِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے اور کوڑھی شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ مسائل: 1۔ مشرکین اور کفار انبیائے کرام (علیہ السلام) کو منحوس قرار دیتے تھے۔ 2۔ انسان کو اپنے برے اعمال کی کچھ نہ کچھ سزا دنیا میں بھگتنا پڑتی ہے۔ 3۔ سرکش اور نافرمان لوگ ہمیشہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ تفسیر بالقرآن: نافرمان قوم کا اپنے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ رویہ : 1۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم :10) 2۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم :13) 3۔ حضرت نوح کو قوم کے سرداروں نے کہا تو تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود :27) 4۔ حضرت موسیٰ کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ:57) 5۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو قتل کیا گیا۔ ( البقرۃ:87) 6۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر آل فرعون نے منحوس ہونے کا الزام لگایا۔ (الاعراف :131)