تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ
یہ سب پر غالب، نہایت مہربان کا نازل کیا ہوا ہے۔
فہم القرآن: (آیت5سے7) ربط کلام : آپ (ﷺ) پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو کفار آپ کے مخالف ہوگئے۔ ان کی مخالفت کا سبب بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں کفار کا پروپیگنڈہ تھا کہ محمد (ﷺ) نے یہ قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ سردار عبد المطلب کا پوتا راہ راست سے بھٹک چکا ہے۔ ان الزامات کی تردید کے لیے آپ کو سردار کے لقب سے پکارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا حلف دے کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو اس لیے صاحب قرآن رسول بنا کر بھیجا تاکہ ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جن کے باپ دادا کو متنبّہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر آپ کے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہے اس لیے یہ بات آپ (ﷺ) کے سامنے واضح کردی گئی کہ آپ کا کام لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان کے فکر و عمل کا معاملہ ہے ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی اور یہی کچھ ہوا کہ نبوت کے آغاز میں مکہ کے جو سردار آپ کی مخالفت میں پیش پیش تھے آخر دم تک ان کی اکثریت ایمان کی دولت سے محروم رہی اور اسی حالت میں نبوت کے چودھویں سال بدر کے میدان میں قتل کردئیے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی (ﷺ) کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں کو ڈرانے والا کوئی رسول نہیں آیا تو پھر وہ ان کے باپ دادا مجرم کیسے ٹھہرے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل مکہ اور اس کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا لیکن بیت اللہ کی برکت اور اس کی مرکزیت کی وجہ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے بعد جو رسول عرب میں مبعوث کیے گئے ان کی تعلیم یقیناً اہل مکہ تک پہنچتی رہی جس میں ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اہل مکہ نے ملت ابراہیم (علیہ السلام) سے تغافل اختیار کیے رکھا۔ اسی بنا پر یہ الفاظ استعمال ہوئے کہ اہل مکہ کو ان کے برے انجام سے آگاہ کیا جائےکیونکہ ایک مدت بیت چکی ہے کہ ان کے پاس براہ راست ڈرانے والا نہیں آیا۔ آپ (ﷺ) کی نبوت کے بارے میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دعا۔ ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾[ البقرۃ:129] ” اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کے سامنے تیری آیات پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے۔ اور وہ انہیں پاک کرے یقیناً تو غالب حکمت والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ 2۔ آپ (ﷺ) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو غفلت سے بیدا کرنا ہے۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ تفسیر بالقرآن: نزول قرآن کا مقصد : 1۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ :2) 2۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (النحل :64) 3۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء :174) 4۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ:185) 5۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل :82) 6۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم :1) لوگوں کی اکثریت کا حال : 1۔ اکثر لوگ حقیقت نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف :38) 3۔ آپ (ﷺ) کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف :103) 4۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود :17)