سورة فاطر - آیت 29

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور انھوں نے نماز قائم کی اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے انھوں نے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کیا، وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو کبھی برباد نہ ہوگی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت29سے30) ربط کلام : حقیقی علم کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچانے اور اس سے ڈر کر زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے۔ علم اور تقویٰ ! کتاب اللہ کی تلاوت سے حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ انسان یقین اور غور و فکر کے ساتھ کتاب اللہ کی تلاوت کرے۔ حقیقی عالم وہ ہوتا ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتا اور اس پر غوروفکر کرتا ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کا منطقی نتیجہ ہے اور ہونا چاہیے، کہ وہ شخص پانچ وقت نماز ادا کرے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتارہے۔ اس امید اور یقین کیساتھ کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ لین دین کررہا ہے یہ ایسی سودا گری ہے جس میں اسے کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق خرچ کرنے والے لوگ اپنے اعمال اور انفاق کا نہ صرف پورا پورا اجر پائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عظیم فضل اور اجر سے سرفراز فرمائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی کمی، کوتاہی کو معاف کرنے والا اور اس کی نیکی کا قدر دان ہے۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو! میں تمہیں ایسی سوداگری بتلائے دیتاہوں جو تمہیں ” عذاب الیم“ سے نجات دے گی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے لیے اپنے مال اور جان سے اس کے دین کی سر بلندی کے لیے محنت کرتے رہو۔ تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اسے جان لو۔ اس تجارت کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے سے نہریں جارہی ہیں۔ انہیں جنت عدن کے بہترین محلات میں ٹھہرایا جائے گا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے تم دنیا میں بھی کامیاب ہو گے جو تمہارے لے پسندیدہ بات ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو خوشخبری ہے۔ (الصف : 10تا13) اس بات کو ایک اور انداز میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں اور ان کے مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلیا ہے۔ مومن اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں جن میں کچھ شہید ہوتے ہیں اور باقی غازی بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن میں کیا ہے جسے وہ ہر صورت پورا کرے گا۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی وعدہ ایفاء کرنے والا نہیں۔ اے مومنو! تمہیں اس تجارت پر خوش ہونا چاہیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ:111) نماز کا فائدہ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَائِرُ) [ رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور پہلا جمعہ دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ صدقہ کرنے کا فائدہ : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِیْتَۃَ السَّوْءِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَۃِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ تفسیر بالقرآن: صاحب علم کے اوصاف : 1۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزّمر :9) 2۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی زیادہ ڈرتے ہیں۔ (فاطر :28) 3۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:11) 4۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 5۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں انہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت :43) 6۔ راسخ العلم اللہ تعالیٰ کی آیات انکار کرنے کی بجائے ان پر ایمان لاتے ہیں۔ (آل عمران :7)