وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں توبلا شبہ ان لوگوں نے (بھی) جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور صحیفوں کے ساتھ اور روشنی کرنے والی کتاب کے ساتھ آئے۔
فہم القرآن: (آیت25سے26) ربط کلام : توحید و رسالت کا پیغام واضح ہوجانے کے باوجود اگر کفار آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اے پیغمبر (ﷺ) ! یہ واقعہ صرف آپ کے ساتھ ہی پیش نہیں آیا۔ آپ سے پہلے لوگوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) جس قدر محنت اور دلسوزی کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتے۔ لوگ اسے قبول کرنے کی بجائے اتنی سختی کے ساتھ مخالفت کا اظہار کرتے۔ اس صورت حال پر دل گرفتہ ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے جس بنا پر آپ (ﷺ) افسردہ خاطر ہوجاتے۔ قرآن مجید میں آپ کی ڈھارس اور تسلی کے لیے کئی انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک انداز یہ بھی ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ کو حد سے زیادہ دل گر فتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی منکرین حق نے تکذیب کا رویہ اختیار کیا تھا۔ حالانکہ یہ رسول بڑے بڑے معجزات، بھر پور دلائل، صحیفے اور روشن کتاب دے کر بھیجے گئے تھے۔ لیکن حق کا انکار کرنے والوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان کی دعوت کو مسترد کیا۔ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سخت گرفت کی اور انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کیا۔ اہل علم نے کتاب سے مراد تورات لی ہے جو نزول قرآن سے پہلے آسمانی کتابوں میں سب سے واضح اور مدلّل کتاب ہے۔ مسائل: 1۔ نبی کریم (ﷺ) سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا تھا۔ 2۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) معجزات واضح، دلائل، اور روشن کتابوں کے ساتھ مبعوث کیے گئے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے منکرین حق کو ان کے انکار اور استکبار کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا۔