وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو، تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو دنیا میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتے وہ آخرت میں کسی کی ذمہ داری کیا اٹھائیں گے۔ مشرکین کا عقیدہ ہے کہ جن بزرگوں کے حضور ہم نذرو نیاز دیتے ہیں وہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے چھڑا لیں گے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والوں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا جو شخص بوجھ تلے دبا ہوگا وہ بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے اقرباء اور احباب کو آواز پر آواز دے گا لیکن اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ باپ بیٹے سے، بھائی اپنے بھائی سے، ماں اپنے جگر گوشوں سے، بیٹیاں اپنی مامتا سے دور بھاگ جائیں گی۔ اسی لیے نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ بالخصوص ان لوگوں کو قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرائیں جو اپنے رب سے اس کو دیکھے بغیرڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ جس نے اپنے آپ کو گناہ کی نحوست سے پاک رکھا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور بالآخر ہر کسی نے اپنے رب کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ قرآن مجید نے گناہوں کے لیے بوجھ کا لفظ استعمال کیا ہے یہ ایسا بوجھ ہوگا کہ جس کے تلے مجرم دبا ہوا ہوگا۔ وہ اپنے عزیز و اقرباء اور جاننے والوں کو اپنی مدد کے لیے باربار پکارے گا لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس صورت حال سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو اپنے رب پر فی الحقیقت ایمان رکھنے والے اور نماز کی پابندی کرنے والے ہیں۔ یاد رہے کہ گناہوں کا آخرت میں ہی بوجھ نہیں ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا بوجھ ہوتا ہے جس وجہ سے انسان پریشان ہوتا ہے اور کئی انسان گناہ کے بوجھ اور شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں۔ جو پہلے گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (ﷺ) سردیوں کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پتے گر رہے تھے آپ نے درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا جس سے ٹہنی کے پتے زمین پر گر پڑے پھر فرمایا : ابوذر! میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! حاضرہوں آپ نے فرمایا : مسلمان جب اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی گر جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گر گئے ہیں۔“ [ مسند احمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث أبی ذر (ضعیف) ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (ﷺ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ “ [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] مسائل: 1۔ انسان کے گناہ قیامت کے دن بوجھ بن جائیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور نماز قائم کرنے والے ہی گناہوں سے بچا کرتے ہیں۔ 4۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا : 1۔ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (بنی اسرائیل : 10۔ فاطر :18) 2۔ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الزّمر :7) 3۔ خبر دار کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم :38) 4۔ انسان جو بھی کرتا ہے اس کابوجھ اسی پہ ہے۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 5۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ :141) 6۔ قیامت کے دن دوست کام نہیں آئیں گے۔ (البقرہ :254)