مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہوگی۔
فہم القرآن: ربط کلام : جس طرح زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح ہی عزت اور ذلّت کا مالک ہے۔ انسان کا وقار اور اقبال اسی میں ہے کہ وہ قیامت کے قائم ہونے کا عقیدہ اپنے ذہن میں ہر دم تازہ اور قائم رکھے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ جس انسان کا آخرت کے بارے میں عقیدہ اٹھ جاتا ہے وہ بے ہودہ اور برے کاموں میں عزت تلاش کرتا ہے۔ یہی سوچ اور روّیہ اہل مکہ کا تھا وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے اس نبی کی دعوت تسلیم کرلی تو لوگوں کی نظروں میں ہمارا وقار ختم ہوجائے گا۔ اسی کے پیش نظر نبی (ﷺ) کی مخالفت کے درپے رہتے تھے۔ انہیں اور ان کے حوالے سے دنیا بھر کے لوگوں کو یہ عقیدہ بتلایا اور سمجھایا جارہا ہے کہ عزت ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو ایک خاک نشین کو آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کردے اور چاہے تو بادشاہ کو اس کے برے اعمال کی وجہ سے ذلت سے دوچار کر دے۔ وہ عزت اور ذلّت دینے پر پوری طرح قادر ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات اور صالح اعمال اٹھائے جاتے ہیں جو انسان کی حقیقی عزت اور دائمی اقبال کا زینہ ہیں۔ جو شخص پاکیزہ خیالات، اچھے کلمات، اعلیٰ اخلاق اور صالح کردار کا حامل ہوتا ہے وہی اس کی بارگاہ میں عزت پاتا ہے۔ جو لوگ دین حنیف کے مقابلے میں بری تدبیریں کرتے ہیں نا صرف ان کے مکروفریب نا کام ہوجائیں گے بلکہ انہیں شدید عذاب سے بھی دوچار کیا جائے گا۔ کلمہ طیبہ سے مراد عقیدہ توحید ہے۔ جس بنا پر آدمی ذہنی پستی سے نکل کر فکر وکردار کی بلندی حاصل کرتا ہے۔ وہ کسی کی تکریم اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے مجھے عزت ملے گی۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ عزت اور ذلّت صرف ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں تک ” حق“ کے خلاف مکرو فریب کرنے والوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ذلیل کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مکروفریب کو پسند نہیں کرتا اور آخرت میں مکروفریب کرنے والوں کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ) [ رواہ احمد : مسند تمیم دارمی] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات کا اندہیرا اور دن کا اجالاپہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کچے پکے مکان کو نہیں چھوڑے گا مگر دین کو وہاں داخل فرمائے گا۔ معزز کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ معزز کو دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلت کفر سے ملے گی۔ حضرت تمیم داری (رض) کہا کرتے تھے میں اپنے گھروالوں میں سے انہیں پہچانتا ہوں جو دین کی وجہ سے معزز ہوئے اور بھلائی حاصل کی۔ اور جو کافر تھے ان پر ذلت، حقارت مسلط کردی گئی اور وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوئے۔“ مسائل: 1۔ ہر قسم کی عزت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 2۔ مکار لوگوں کے مکر وفریب بالآخر نا کام ہوجاتے ہیں۔ 3۔ عقیدہ توحید اور صالح کردار کے سبب ہی انسان حقیقی عزت پا سکتا ہے۔ 4۔ دین کے خلاف مکروفریب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ شدید ترین عذاب دے گا۔ تفسیر بالقرآن: مکرو فریب کی ناکامیاں : 1۔ ان کے مکر کا انجام دیکھیں ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النّمل :51) 2۔ عنقریب جرائم اور مکر وفریب کرنے والوں کو اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرناپڑے گا۔ (الانعام :124) 3۔ ان سے پہلے لوگ بھی مکر وفریب کرچکے ہیں۔ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ (الرّعد :42) 4۔ عیسائیوں نے تدبیرکی اللہ نے وہ تدبیر انہی پر لوٹا دی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران :54) 5۔ انہوں نے آپ (ﷺ) کے خلاف سازش کی اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش ناکام بنا دی۔ (الانفال :30)