وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور کسی کے لیے یقین نہ کرو، سوائے اس کے جو تمھارے دین کی پیروی کرے۔ کہہ دے اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے، (یہ یقین نہ کرو) کہ جو کچھ تمھیں دیا گیا ہے اس جیسا کسی اور کو بھی دیا جائے گا، یا وہ تم سے تمھارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے۔ کہہ دے بے شک سب فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : کسی کے نعروں اور دعووں سے دھوکہ کھانے اور اعتماد کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل کسی شخص کی ذات یافرقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی رحمت کی بدولت ہوا کرتا ہے۔ اہل کتاب رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے باوجود فکر مند رہتے تھے کہ مسلمانوں کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ جو شخص بھی آپ سے ملاقات کرتا اور قرآن سنتا ہے وہ آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اہل کتاب کے سامنے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اس کی طویل لسٹ تھی۔ اکثریہ ہوا کہ اہل مکہ اور اہل کتاب کانمائندہ بن کر جانے والاشخص آپ کی پرجمال شخصیت اور دل ربا گفتگو سن کر اپنے دین سے دستبردار ہوجاتا۔ اس سے بچاؤ کے لیے انہوں نے اپنی عوام میں پرزور مہم چلائی اور خاص کر سازشوں میں کردار ادا کرنے والوں کو تین باتیں سمجھائیں۔1 اپنے پیشواؤں کے بغیر کسی کی بات نہ ماننا۔ 2 صرف اس بات کو تسلیم کرنا جس کا وجود اور ثبوت تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہو۔ 3 تیسری بات یہ باور کروائی جاتی کہ دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے دین کے بارے میں کوئی کمزور بات کرو یا اسے چھوڑنے کا مسلمانوں کو عندیہ دو۔ یاد رکھنا! روز محشر مسلمان تمہارے خلاف اللہ تعالیٰ کے حضور جھگڑا کریں گے۔ تمہیں وہاں کوئی چھڑانے والا نہیں ہوگا۔ اس طرح کی بے محل مصنوعی فکر آخرت کا خوف دلا کر لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ باطل نظریات کے حامل لوگ شروع سے حق کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ اے اہل کتاب تمہارا صبح کے وقت ایمان لانا اور شام کے وقت انکار کرنا اہل حق کو صراط مستقیم سے نہیں ڈگمگا سکتا کیونکہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب وہ کسی کو ہدایت سے سرفراز کرتا ہے تو دنیا کی کوئی سازش اس کے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکتی۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہدایت وہ نہیں جسے اہل کتاب یا دنیا کا کوئی شخص ہدایت قرار دے۔ ہدایت حقیقتاً وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی۔ جو سراسر اللہ کا فضل ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت اور ہدایت کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، وسعتوں اور اس کے لامحدود فضل کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) اللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ)[ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بے شک بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو پھیرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا“ مسائل : 1۔ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے اپنے عقیدہ کو حق سمجھتے ہیں۔ 2۔ جماعتوں اور انسانوں کا من گھڑت عقیدہ ہدایت نہیں ہوا کرتا۔ 3۔ ہدایت اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے فضل سے ملتی ہے۔ 4۔ فضل سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ وسعت اور علم والا ہے۔ تفسیربالقرآن : ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے : 1۔ ہدایت کا اختیار نبی (ﷺ) کو بھی حاصل نہیں۔ (القصص :56) 2۔ نبی کسی کو ہدایت پر گامزن کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ( البقرہ :272) 3۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم :4) 4۔ جسے اللہ گمراہ کر دے کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ (الاعراف :186)