وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ
اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی، نظر آنے والی بستیاں بنا دیں اور ان میں چلنے کا اندازہ مقرر کردیا، راتوں اور دنوں کو بے خوف ہو کر ان میں چلو۔
فہم القرآن: (آیت18سے19) ربط کلام : قوم سبا کا تمدّن۔ قوم سبا اپنے دور میں نظام آبپاشی اور زراعت میں ہی خود کفیل اور انتہائی ترقی یافتہ نہ تھی بلکہ تہذیب و تمدّن کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ اور باکمال تھی۔ اس کے اکثر شہر اور بستیاں شاہراؤں پر واقع تھے جس سے سفر آسان، محفوظ اور مسافروں کو کھانے پینے اور قیام میں کوئی دقت پیش نہیں آیا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تعمیر و ترقی کی ایسی صلاحیتیں عطا فرمائیں تھیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ٹھیک منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیراتی کام کیے اور شہروں کے بہترین نقشے بنائے جس سے عوام کو ہر قسم کی سہولت میسرتھی۔ لوگ پُر سکون اور عیش کی زندگی بسر کررہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ پُر سکون زندگی اور ملک کی ترقی پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے لیکن انہوں نے شکر کی بجائے نا شکری کا رویہ اختیار کیا اور اس قدر بغاوت کی۔ کہنے لگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے شہروں کے درمیان مسافت پیدا کردے۔ اس طرح انہوں نے آبادی کی کثرت اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے لیے بوجھ جانا۔ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی ترقی اور خوشحالی کو ان کے لیے وبال بنایا اور شدید سیلاب کے ذریعے انہیں تہس نہس کردیا جو طویل عرصہ تک اپنے بعد آنیوالی اقوام کے لیے عبرت گاہ بن گئے۔ قوم سبا کی تاریخ اور آثار اس شخص کے لیے سامان عبرت ہیں جو مشکلات پر صبر اور خوشحالی پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے زبان ہی سے یہ دعا کی ہو کہ ” اللہ“ ہماری بستیوں کو ایک دوسرے سے دور کر دے۔ دراصل جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے گویا وہ زبان حال اور اپنے برے کردار کے ذریعے یہ کہتا ہے کہ الٰہی میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل نے من وسلویٰ کے بارے میں اکتاہٹ کا اظہار کیا اور پیاز وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا اسی طرح ہی قوم سبانے یہ مطالبہ کیا تھا یا پھر وہ تکبر کے طور پر کہنے لگے کہ ہمارے با غات تباہ نہیں ہوسکتے اور ہمارے سفر مشکل نہیں بن سکتے۔ اس تکبر کے نتیجے میں ہی ان کا سب کچھ تباہ کردیا گیا۔ (اللہ اعلم) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کو بہت سی برکات سے نوازا تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کو سفر وحضر میں ہر قسم کی سہولت عنایت فرمائی تھی۔ 3۔ قوم سبا نے شکر کی بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا جس بناء پر انہیں تہس نہس کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن: نشانات عبرت سے سبق سیکھنے والے لوگ : 1۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یوسف :7) 2۔ انبیاء کے قصے برحق ہیں مومنین کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ (ھود :120) 3۔ یہ قصے برحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران :62) 4۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف :111) 5۔ انبیاء کے واقعات میں نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے تابع داروں کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ ( ہود :120) 6۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ:5) 7۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس :6)