لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
بلاشبہ یقیناً سبا کے لیے ان کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں ( جانب) سے۔ اپنے رب کے دیے سے کھاؤ اور اس کا شکر کرو، پاکیزہ شہر ہے اور بے حد بخشنے والا رب ہے۔
فہم القرآن: (آیت15سے17) ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) بے پناہ وسائل کے حامل، زبردست حکمران اور انتہائی ترقی یافتہ مملکت کے سربراہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے یہاں تک کہ موت کے وقت بھی اپنے رب کے شکر میں مشغول تھے ان کے بعد ایک نافرمان ترقی یافتہ قوم کا ذکر۔ قوم سبا کا علاقہ موجودہ یمن کی سرزمین تھی۔ سبا ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ اس سے دس قبیلے معرض وجود میں آئے۔ اس قوم کے عروج وزوال کا دور صدیوں پر محیط ہے۔ ایک وقت تھا کہ اقتدار اور اختیار اور تہذیب وتمدن کے حوالے سے اس قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اس قوم کا آب پاشی کا نظام نہایت ہی مربوط اور منظم تھا۔ اس قوم نے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مآرب تھا۔ سب سے مضبوط بند اسی جگہ تعمیر کیا گیا جو سدِّ مآرب کے نام سے معروف تھا۔ ان کی مملکت میں اکثر راستوں کے دونوں طرف باغات کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ سفر کرنے والے کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ باغات کی سیر کر رہا ہے۔ آبپاشی کا نظام اور قوم کی مسلسل محنت کی وجہ سے ہزاروں میلوں پر پھیلا ہوا علاقہ حسن وجمال کا پیکر دکھائی دیتا تھا۔ اس ملک کی فصلوں میں انگور، کھجور، دارچینی اور بخارات کے درخت کثرت سے پائے جاتے تھے۔ صبح اور شام کے وقت باغات کی بھینی بھینی خوشبو پورے علاقے کو معطر کردیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ” بَلَدٌ طَیْبَۃٌ“ قرار دیا ہے۔ رزق کی فراوانی اور وسائل کی بہتات کی وجہ سے یہاں کے لوگ عیش وعشرت کی زندگی میں اس قدر مست ہوئے کہ انہوں نے خالق حقیقی کو اس طرح فراموش کردیا جیسے ان کا کوئی خالق ہی نہ ہو۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث کیا۔ مگر اس قوم نے فخر وغرور کی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جس مآرب نامی مضبوط ڈیم پر یہ قوم فخر کرتی اور اس کے بل بوتے پر ترقی کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بارشوں کا ایسا سلسلہ جاری فرمایا کہ ڈیم پانی کو برداشت نہ کرسکا اور وہ اس طرح پھٹ پڑا جیسے خربوزہ پھٹ جاتا ہے۔ اوپر سے بارشیں اور نیچے سے بند ٹوٹنے کی وجہ سے اس قدر تباہ کن سیلاب آیا کہ جس کا قوم تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ فصلیں تباہ ہوگئیں۔ ملک کا وسیع علاقہ ریت اور بھل کی وجہ سے دلدل بن گیا۔ اور آبپاشی کا نظام درہم برہم ہوا، بڑے بڑے محلات میں ناقابل مرمت دراڑیں واقع ہوگئیں۔ تعمیر نوکی کوئی صورت کار گر ثابت نہ ہوئی۔ جس سرزمین پر باغات مہکتے تھے اور فصلیں لہلہایا کرتی تھیں وہاں خار دار جھاڑیاں اور اس طرح کی جڑی بوٹیاں پیدا ہوئیں کہ ملک ایک بھیانک جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خار دار جھاڑیوں میں کہیں کہیں خود رو بیریوں کے درخت اگ پڑے۔ جن کے بیروں پر یہ قوم ایک عرصہ تک اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہوئی۔ جو ملک اپنی ترقی کے حوالے سے دوسری اقوام کے لیے ایک نمونہ تھا وہی عبرت کا مجسمہ بنا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ قوم سبا کو یہ سزا ان کی نا شکری کی وجہ سے دی گئی جو صرف ان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہم ہر نا شکرے کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) عَلَی الْمِنْبَرِ مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْقَلِیلَ لَمْ یَشْکُرِ الْکَثِیرَ وَمَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّحَدُّثُّ بِنِعْمَۃِ اللَّہِ شُکْرٌ وَتَرْکُہَا کُفْرٌ وَالْجَمَاعَۃُ رَحْمَۃٌ وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ)[ رواہ احمد : مسند نعمان بن بشیر] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے منبر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جس نے چھوٹی نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا وہ بڑی نعمت پر شکر ادا نہیں کرسکتا اور جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اس کا شکر کرنے کے مترادف ہے اور جس نے ان نعمتوں کو استعمال نہ کیا گویا اس نے ناشکری کی جماعت اللہ کی رحمت کا باعث ہے اور تفرقہ بازی اللہ کا عذاب ہے۔“ نبی کریم (ﷺ) کی شکر کی دعا : (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ قوم سبا کو ان کی ناشکری کی وجہ سے تباہ کردیا گیا۔ 2۔ قوم سبا کے بیراج ہی ان کی تباہی کا سبب ثابت ہوئے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن: ناشکری اور کفر کے نقصانات : 1۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو گے تو اللہ تعالیٰ بے پروا اور لائقِ تعریف ہے۔ (ابراہیم :8) 2۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اگر ناشکری کرو تو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم :7) 3۔ اللہ تمہیں عذاب نہیں دے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ (النساء :147) 4۔ بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف مسلّط کردیا۔ (النحل :112) 5۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل :40) 6۔ اگر انسان پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے مصیبت آجائے تو ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (الشوریٰ:48) 7۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ابراہیم :34) 8۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل :100) 9۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر فضل فرماتا ہے لیکن ان کی اکثریت شکرادا نہیں کرتی۔ (یونس :60) 10۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود :9)