سورة الأحزاب - آیت 43

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ ایمان والوں پر ہمیشہ سے نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت43سے44) ربط کلام : ” اللہ“ کا ذکر لازم ہے اور اس کے بے شمارفوائد ہیں جن میں سے چھ کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ قَالَ إِنَّ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ مَلاَئِکَۃً فُضُلاً یَتَّبِعُونَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ یَجْتَمِعُونَ عِنْدَ الذِّکْرِ فَإِذَا مَرُّوا بِمَجْلِسٍ عَلاَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ حَتَّی یَبْلُغُوا الْعَرْشَ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ مِنْ أَیْنَ جِئْتُمْ فَیَقُولُونَ مِنْ عِنْدِ عَبِیدٍ لَکَ یَسْأَلُونَکَ الْجَنَّۃَ وَیَتَعَوَّذُونَ بِکَ مِنَ النَّارِ وَیَسْتَغْفِرُونَکَ فَیَقُولُ یَسْأَلُونِی جَنَّتِی ہَلْ رَأَوْہَا فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْہَا وَیَتَعَوَّذُونَ مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْہَا فَإِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ فَیَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّ فیہِمْ عَبْدَکَ الْخَطَّاءَ فُلاَناً مَرَّ بِہِمْ لِحَاجَۃٍ لَہُ فَجَلَسَ إِلَیْہِمْ فَقَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أُولَئِکَ الْجُلَسَاءُ لاَ یَشْقَی بِہِمْ جَلِیسُہُمْ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ مَجَالِسِ الذِّکْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے جو ذکر کی مجالس کے متلاشی رہتے ہیں جہاں ذکر ہو رہا ہو ملائکہ وہاں جمع ہوجاتے ہیں اور جب ان کا کسی ایسی مجلس کے پاس گذر ہوتا ہے تو فرشتے ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں تم کہاں سے آئے ہو۔ حالانکہ اللہ کو علم ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ فرشتے عرض کرتے ہیں۔ ” اللہ“ تیرے بندوں کے ہاں سے آئے ہیں، وہ تجھ سے تیری جنت کے طلب گار ہیں اور تیری جہنم سے پناہ مانگتے ہیں اور تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں وہ مجھ سے جنت مانگ رہے تھے کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے۔ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو ان کی کیفیت کیا ہو ؟ اور وہ جہنم سے پناہ مانگ رہے ہیں اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی حالت کیا ہو؟ میں نے انہیں معاف کردیا ہے فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک فلاں گناہگار بھی ہے جو اپنی ضرورت کے تحت آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے ایسے نیک بخت ہیں کہ ان کی وجہ سے اسے بھی رحمت سے محروم نہیں کیا جاتا۔“ ملائکہ کی دعائیں : جب کوئی شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے تو نہ صرف اس پر رب کریم کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے بلکہ اس دورانیہ میں ملائکہ اسکے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ ذکر کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور ملائکہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کرتے ہیں ذکر کرنے سے انسان شیطان کے تسلط سے نجات پاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اسے ہر ظلمت سے نکال کر نورِبصیرت اور نورِشریعت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، شیطان انسان کے دل کے ساتھ چمٹا رہتا ہے جب آدمی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔ جب انسان اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : تعلیقاً] ذکر کا صرف یہ معنٰی نہیں کہ انسان زبان سے ” اللہ، اللہ“ کرتا رہے اور عمل کی دنیا میں جو چاہے کرتا پھرے۔ ایسے شخص کو دنیا میں ذکر کرنے کا ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا لیکن قیامت کے دن اسے کچھ نہیں ملے گا۔ ذکر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان شرک وبدعت سے اجتناب کرے اور اپنے آپ کو اپنے رب کے تابع کردے۔ ایسے شخص کو دنیا میں ذکر کے فوائد سے سر فراز کیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے رب کریم نے اجر کریم تیار کر رکھا ہے۔ مسائل: اس آیت میں بیان ہونے والے ذکر کے چھ فوائد : 1۔ ذکر کرنے والے پر اللہ کا فضل نازل ہوتا ہے۔ 2۔ ذکر کرنے والے کے لیے ملائکہ دعائیں کرتے ہیں۔ 3۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ظلمت سے نکال کر نورِہدایت نصیب کرتا ہے۔ 4۔ موت کے وقت ملائکہ اسے سلام کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔ 6۔ ذاکر کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِعظیم تیار کر رکھا ہے۔