وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ذکر ہونے والے اوصاف حمیدہ کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلوانے کا حق نہیں رکھتا جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو اپنے لیے قطعی اور آخری فیصلہ تسلیم نہ کرلے۔ نبی نے معاشرے میں سماجی اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے اپنے متبنّٰی بیٹے زید کے لیے حضرت زینب کا رشتہ اس کے قریبی رشتہ داروں سے طلب کیا زینب (رض) اور ان کے قریبی رشتہ داروں نے اسے ناپسند جانا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم قریش کے رؤسا ہیں اور زید ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ حضرت زینب آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھی انہوں نے نکاح کے پیغام کے ردِعمل میں یہ الفاظ کہے کہ ” اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ نَسَبًا“ میں زید سے نسب کے لحاظ سے اعلیٰ ہوں اس بنا پر اس نے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ کہ کسی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو پھر اسے اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ جونہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضرت زینب اور اس کے رشتہ داروں نے اسے سنا تو انہوں نے آپ (ﷺ) کے سامنے آکر اپنی آمادگی کا اظہار کردیا۔ اس کے بعد نبی (ﷺ) نے حضرت زید کا نکاح حضرت زینب سے کردیا۔ تاہم ان کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ازواجی زندگی میں عجب واقعہ : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مَعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ ﴾إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ﴾ فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں مسلمانوں میں سے ایک آدمی کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا‘ کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم! اب یہ کبھی بھی تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر آیت نازل فرمائی ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ﴾ جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح کرتا ہوں اور تیری عزت بھی کروں گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا واضح طور پر بھٹک جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہرمؤمن اور مؤمنہ پر فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کرے : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال :46) 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران :132) 3۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد :33) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ:92) 5۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء :59)