سورة الأحزاب - آیت 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تمھارے بارے میں سخت بخیل ہیں، پس جب خوف آپہنچے تو توانھیں دیکھے گا کہ تیری طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو، پھر جب خوف جاتا رہے تو تمھیں تیز زبانوں کے ساتھ تکلیف دیں گے، اس حال میں کہ مال کے سخت حریص ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیے اور یہ ہمیشہ سے اللہ پر بہت آسان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت19سے20) ربط کلام : منافق کی ایک اور بری عادت اور اس کے بزدل ہونے کی انتہاء۔ درحقیقت منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کسی اچھے کام پر مال خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا۔ نہ صرف خود بخیل ہوتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی بخل پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ وہ اپنے رشتہ دار مخلص مسلمانوں کو جہاد پر مال خرچ کرنے سے روکتے تھے۔ مال کی محبت کی وجہ سے انسان بخل کرتا ہے اور بخیل آدمی دوسروں کی نسبت موت سے زیادہ ڈرتا ہے یہی حال منافقین کا تھا۔ جن کے بارے میں صحابہ (رض) کو فرمایا گیا کہ ان کی طرف دیکھو اور غور کرو کہ جب تم انہیں جہاد کے لیے کہتے ہو تو ان کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں جیسے مرنے والا ایک ہی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب جہاد کا خوف جاتا رہتا ہے تو پھر ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں اور یہ مال غنیمت لینے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں لائے۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی مشکل نہیں کہ ان کے اعمال ضائع کر دے۔ منافق اس حد تک بزدل ہوچکے ہیں کہ اپنے گھروں میں جانے کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ ابھی تک کفار کے لشکر واپس نہیں گئے اگر کفار کے لشکر واپس آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مدینہ چھوڑ کر دیہاتوں میں نکل جائیں اور وہاں جا کر تمہارے بارے میں معلومات لیتے رہیں کیونکہ یہ تمہارے ساتھ رہ کر لڑنے کے لیے تیار نہیں ” اَشِحَّۃٌ“ کی جمع ”شیح“ ہے جس کا معنٰی بہت زیادہ بخل کرنا اور لوگوں کو خیر کے کاموں سے روکنا ہے۔ مسائل: 1۔ منافق بزدل اور بخیل ہوتا ہے۔ 2۔ منافق کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ 3۔ حقیقت میں منافق بے ایمان ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے : 1۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : 19۔20) 2۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہ ہے۔ (فاطر : 16۔17) 3۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء :123) 4۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام :133) 5۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ :54) 6۔زمینوں،آسمانوں کی بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے(آل عمران :189) 7۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔(البقرۃ :20) 8۔اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (البروج :16) 9۔ہر کام کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔(الحج:41) 10۔ہر کام اللہ کے سپرد کرنا چاہیے۔(البقرۃ:210) 11۔اللہ ہی کے لیے زمین وآسمان کی بادشاہی ہے ۔(الشوریٰ:49) 12۔اللہ ہی کے لیے زمین وآسمان کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے معاف کریگا۔(الفتح:14)