وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا۔
فہم القرآن: (آیت7سے8) ربط کلام : سابقہ آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اور مخالفت کرنے والے جس قدر چاہیں حق کی مخالفت کرنے پر تل جائیں اے پیغمبر (ﷺ) آپ نے لوگوں تک حق پہنچانا اور ہر حال میں حق پر قائم رہنا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے سامنے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے انبیاء کرام، نوح، ابراہیم، موسٰی، عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ (ﷺ) سے عہد لیا ہے کہ ہر حال میں لوگوں تک حق پہنچانا اور اس پر قائم رہنا ہے۔ اس بارے میں آپ اور دوسرے انبیاء سے سوال کیا جائے گا۔ لہٰذا لوگوں کے حق کے بارے میں جذبات کچھ بھی ہوں آپ کو پہنچانا ہوگا۔ جو لوگ سچائی کا انکار کریں گے ان کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہاں سچائی سے مراد ہرقسم کی سچائی ہے جس میں پہلی سچائی جس کا عہد لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا اور اس کا پرچار کرنا ہے۔ دوسری سچائی اور عہد یہ ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کی تائید کرے گا اور لوگوں تک حق بات پہنچائے۔ ﴿فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ ﴾(الاعراف:6 ۔7) ’’جنکی طرف رسول بھیجے گئے ہم ان سے ضرور پوچھیں گے اور رسولوں سے بھی ضرور سوال کریں گے ۔پھر ان کے سامنے علم کے ساتھ بیان کریں گے اور ہم غائب نہ تھے ۔‘‘ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَا اَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا﴾) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچایا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے میرا پیغام پہنچایاتھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے، محمد (ﷺ) اور اس کی امّت۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ وہ حق پر قائم اور حق کا پرچار کرتا رہے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سچ پر قائم رہنے والوں سے سوال کرے گا اور سچ کا انکار کرنے والوں کو سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا انبیاء کرام (علیہ السلام) سے جواب طلب فرمانا اور نبیوں کا انکار کرنے والوں کو سزا دینا : 1۔ ہم ان لوگوں سے بھی ضرور سوال کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور رسول سے بھی جواب طلب کیا جائے گا۔ (الاعراف :6) 2۔ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق ضرور سوال کرے گا۔ (الاحزاب :8) 3۔ کفار کے لیے دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر انکا ہماری طرف لوٹنا ہوگا پھر ہم انہیں سخت عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (یونس :70) 4۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم :79) 5۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوگا۔ (العنکبوت :53) 6۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف :51) 7۔ قیامت کے دن ہم انہیں فرموش کردیں گے جس طرح وہ قیامت کی ملاقات کو بھول گئے کیونکہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (الاعراف :51) 8۔ ان کے کفر کی وجہ سے ہم انہیں شدید ترین عذاب چکھائیں گے۔ (یونس :70)