وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس تو اس کی ملاقات سے شک میں نہ ہو اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔
فہم القرآن: (آیت23سے25) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں سے انتقام لیاان میں آل فرعون بھی شامل ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر ذکر کرنے کے بعد آل فرعون کے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ جس میں بنی اسرائیل کے لیے راہنمائی تھی اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ایسے راہنما مقرر فرمائے جو اس کے حکم کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کرتے مگر لوگوں نے ان کی راہنمائی قبول کرنے کی بجائے ان کی مخالفت کی اور انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں جس پر راہنماؤں نے صبر سے کام کیا کیونکہ وہ اپنے رب کے ارشادات پر یقین رکھنے والے تھے کہ انہیں تکلیفوں کے بدلے ضرور اجرسے نوازا جائے گا۔ جن لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقرر کردہ راہنماؤں سے اختلاف کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ بنی اسرائیل میں ائمہ مقرر کرنے سے مراد انبیاء عظام ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مبعوث کیے ان سے مراد بارہ رہنما بھی ہو سکتے ہیں جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے نائب کے طور پر بارہ قبیلوں کا نقیب مقرر کیا تھا یہاں پہلی آیت میں ﴿فَلَا تَکَنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْ لِقَائِہٖ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جس کا ایک معنٰی یہ ہے کہ کفار اپنے رب کی ملاقات یعنی قیامت کے دن کے منکر ہیں لیکن اے نبی (ﷺ) آپ کو اپنے رب کی ملاقات پر کامل یقین رہنا چاہیے کہ اس دن آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے ان الفاظ کا یہ بھی معنٰی لیا ہے کہ اس ملاقات سے مراد نبی اکرم (ﷺ) کی معراج میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہونے والی ملاقات ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ اِنَّ اُنَاسًا مِّنَ الْاَنْصَارِ سَاَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَاَعْطَاھُمْ حَتّٰی نَفِدَ مَا عِنْدَہُ فَقَالَ مَا یکُوْنُ عِنْدِیْ مِنْ خَیرٍ فَلَنْ اَدَّخِرَہُ عَنْکُمْ وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ وَمَنْ یَّتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ وَمَا اُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَآءً ھُوَ خَیرٌ وَّاَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ) [ رواہ البخاری : باب الصَّبْرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اکرم (ﷺ) سے مال کیلئے سوال کیا آپ (ﷺ) نے ان کو مال دے دیا حتیٰ کہ جو مال آپ کے پاس تھا ختم ہوگیا پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا میرے پاس جتنا بھی مال ہو میں کبھی انکار نہیں کروں گا لیکن جو شخص سوال کرنے سے خود کو بچائے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بچائے گا اور جو شخص بے نیازی اختیار کریگا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دیگا۔ جو شخص صبر کریگا اللہ تعالیٰ اسے صبر عنایت فرمائیگا۔ کوئی شخص صبر سے بہتر اور فراخی والے تحفہ سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے دینی رہنما مقرر فرمائے۔ 3۔ قوم کے راہنما کو صابر ہونا چاہیے۔ 4۔ رہنما کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہونا چاہیے۔ کہ اسے ضرور بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: صبر کے فوائد : 1۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ:152) 2۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ:152) 3۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10) 4۔ بے شک جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا انہیں کوئی خوف اور حز ن و ملال نہیں ہوگا۔ (الاحقاف :13)