وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی، پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا۔ یقیناً ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کو دنیا میں ہلکے پھلکے عذاب اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی رحمت کے حقدار بن جائیں مگر ظالم پھر بھی اعراض کیے رکھتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ ہم لوگوں کو بڑا عذاب دینے سے پہلے اس لیے چھوٹے، چھوٹے عذاب دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ لیکن ظالم لوگ نہ نصیحت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی وہ چھوٹے، چھوٹے عذابوں سے ڈرتے ہیں۔ جب لوگوں کی یہ حالت ہوجائے تو پھر ظالموں سے انتقام لیا جاتا ہے اور ایک طرف ان کے گناہوں کی سزا دی جاتی اور دوسری طرف مظلوموں کا بدلہ چکایا جاتا ہے تاکہ دنیا کا نظام درہم برہم ہونے سے بچ جائے اور مظلوموں کو ریلیف دیا جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم مدین، آل فرعون اور دیگر اقوام پر عذاب نازل ہوئے اور انہیں نیست ونابود کر کے دوسری اقوام کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ مسائل: 1۔ جو قوم مسلسل اعراض کا رویّہ اختیار کرے اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے اس طرح ظالموں سے انتقام لیا جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ظالم اقوام پر نازل ہونے والے عذاب : 1۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 2۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ:6) 3۔ قوم عاد کو تند وتیز آندھی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ :6) 4۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ:5) 5۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (الحجر :74) 6۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82)