وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کی آخرت سے پہلے دنیا میں سزا۔ جو لگ اپنے رب کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے حساب و کتاب کو جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے والا شخص بڑا ظالم ہوتا ہے ان مجرموں سے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں انتقام لیں گے قیامت کو انہیں بڑا عذاب ہوگا لیکن دنیا میں بھی چھوٹے چھوٹے عذابوں کے ساتھ ان سے انتقام لیا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک آخرت کے عذاب سے یہ کبھی چھٹکارا نہیں پائیں گے لیکن دنیا کے چھوٹے عذاب سے انہیں اکثر اوقات اس لیے نجات دی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت اور دنیا کے عذاب میں یہ فرق ہے کہ آخرت کا عذاب کافر، مشرک پر ہلکا نہیں ہوگا۔ لیکن دنیا کے عذاب میں سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے عذاب سے نجات پانے کے لیے اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما کر قیامت کے بڑے عذاب سے بچا لے اس طرح دنیا کے عذاب میں شفقت کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے اور دنیا میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے بعد بڑا عذاب بھی آ سکتا ہے۔ مسائل: 1۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ 2۔ ظالموں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انتقام لیتا ہے۔ 3۔ دنیا میں سزا دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاکہ بندہ اپنے رب سے معافی مانگ لے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ 5۔ دنیا کے عذاب اللہ تعالیٰ اس کی شفقت پنہاں ہوتی ہے۔