وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
اور انھوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں گم ہوگئے، کیا واقعی ہم ضرور نئی پیدائش میں ہوں گے؟ بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں۔
فہم القرآن: (آیت10سے11) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ یہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کا تابعدار اور شکر گزار رہے لیکن انسان کی ناشکری کی انتہا۔ ناقدری اور ناشکری کی انتہاء ہے کہ قیامت کے منکر کہتے ہیں کہ کیا ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو پھر ازسر نو پیدا کیے جائیں گے۔ ایسا کہنے والے دراصل اپنے رب کی ملاقات کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں آگاہ فرمادیں کہ ہاں جو فرشتہ تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں موت دے گا پھر تم اپنے رب کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ) [ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ ابْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ رواہ البخاری:کتاب التفسیر،باب ﴿يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) مسلم میں ہے۔ کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی سوائے دمچی کے انسان اسی سے پیدا ہوا اور اسی سے جوڑا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کا انکار کرنا کفر ہے۔ 2۔ ہر کسی کو موت آنی ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن: موت کے بعد جی اٹھنے کے دلائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:73) 2۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:259) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ان کے ذبح کیے ہوئے چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ :260) 4۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ (آل عمران : 49، المائدۃ:110) 5۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف :25) 6۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ:243) 7۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل :64) 8۔ آپ فرما دیں ” اللہ“ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس :34) 9۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک و بد کو جزاو سزا مل سکے۔ (یونس :4) 10۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد :5) 11۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام :36) 12۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ:6)