إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 59 سے 60) ربط کلام : عیسائیوں سے خطاب کے آغاز میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندان۔ ان کی پیدائش کے مراحل‘ حضرت مریم علیہا السلامکا تعجب‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید‘ اس کا رد عمل اور اب ان کی ذات کے بارے میں وضاحت کی جا رہی ہے۔ قرآن مجید نے صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی تفصیلات ہی نہیں بتائیں بلکہ دنیا کے سامنے ان کے پورے خاندان کی تاریخ رکھ دی ہے۔ جس میں ان کی نانی کی نذر ماننے سے لے کر حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش، بیت المقدس میں ان کے خالو کے ہاں ان کی تربیت‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ‘ ان کی پیدائش پر حضرت مریم علیہا السلام پر یہودیوں کا الزام اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب گویا کہ ان کی زندگی کے اہم مراحل اور خاندانی پس منظر سے لے کر آسمانوں پر اٹھائے جانے تک کی تفصیلات کھول کر بیان کردی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ” کُنْ“ کہہ کر مٹی سے پیدا فرمایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دیتے ہوئے حضرت مریم علیہا السلامکو بھی ” کُنْ“ کے الفاظ صادر فرمائے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بات کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس کے لیے لفظ کُنْ سے حکم صادر فرماتا ہے۔[ یٰسٓ:82] عیسائی لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں اور وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنی روح پھونکی لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم سے مل کر اللہ تعالیٰ کی خدائی مکمل ہوتی ہے۔ اس کو عرف عام میں تثلیث کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آدم (علیہ السلام) کی مثال دے کرواضح فرمایا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے تم کہتے ہو کہ یہ اللہ ہیں یا اللہ کا حصہ ہیں تو تمہارا آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کی تخلیق تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی بڑھ کر تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تو والدہ تھی جب کہ آدم (علیہ السلام) کا نہ باپ تھا اور نہ ہی ماں۔ کیا پھر آدم (علیہ السلام) کو اللہ یا اس کا جزو قرار دینے کے لیے تیار ہو؟ حالانکہ تمہارا بھی عقیدہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور اوّل البشر ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں خطاب کا اختتام ان الفاظ سے کیا جارہا ہے کہ جو تفصیلات تمہارے سامنے بیان کی گئی ہیں۔ یہ سب تمہارے رب کی طرف سے حق اور سچ ہے۔ لہٰذا تم اور کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ خَلَقَ اللَّہُ اٰدَمَ عَلَی صُورَتِہِ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ) [ رواہ البخاری : باب بدء السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی صورت کے مطابق بنایا، اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔“ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مماثلت اور فرق : آدم (علیہ السلام) بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) باپ کے بغیر پیدا ہوئے۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنے دست مبارک اور ” کُنْ“ کہہ کر پیدا فرمایا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو صرف ” کُنْ“ کہہ کرپیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) میں اپنی روح پھونکی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت جبریل کے ذریعے روح سے پیدا فرمایا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نبی اور اوّل البشر تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صاحب کتاب نبی اور رسول تھے۔ تفسیربالقرآن : الحق سے مراد : 1۔ درست بات۔ (البقرۃ:146) 2۔ ثابت شدہ حقیقت۔ ( یٰس : 7، المائدۃ:48) 3۔ واجب۔ (ص :14) 4۔ استحقاق۔ (الانعام :93) 5۔ علم۔ (یونس :36) 6۔ یقینی بات۔ (یونس :94) 7۔ معجزات۔ (یونس :76) 8۔ قرآن۔ (الانعام :5) 9۔ نعمت۔ (البقرۃ:146) 10۔ عدل وحکمت۔ (الانعام :73) 11۔ ایثار۔ (الانفال :6) 12۔ توحید۔ (الرعد :14) 13۔ اسلام۔ (اسراء :81)