يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن سے ڈرو کہ نہ باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی ایسا ہوگا جو اپنے باپ کے کسی کام آنے والا ہو۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچ ہے، تو کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور کہیں وہ دغا باز اللہ کے بارے میں تمھیں دھوکا نہ دے جائے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے دراصل وہ اپنے رب سے جھگڑتا ہے۔ انسان کو اپنے رب سے جھگڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور قیامت کے عذاب سے بچنا چاہیے۔ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن سے خوف کھاؤ جس دن باپ اپنے بیٹے کے اور بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام نہیں آسکے گا۔ اس دن کو برپا کرنا اور لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے۔ تمہیں اس دن کے بارے میں دنیاکی زندگی دھوکے میں مبتلا نہ کرے اور نہ ہی شیطان تمہیں تمہارے رب کے بارے میں کسی فریب میں مبتلا کرے۔ قرآن مجید میں یہ بات پوری طرح کھول کر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے دن نہ سفارش چلے گی نہ فدیہ قبول ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کا اثر ورسوخ کام آئے گا حالت یہ ہوگی کہ جونہی کسی مجرم کی گرفتاری عمل میں آئے گی تو اس کے عزیزو اقربا اس سے دوربھاگ جائیں گے یہاں تک کہ بھائی اپنے بھائی سے ماں، باپ اپنی اولاد سے سے دور بھاگ جائے گی ( عبس : 33تا36) یہ صورتحال دیکھ کر مجرم خواہش کرے گا کہ کاش میری اولاد، میری بیوی، میرے بھائی اور میرے خاندان کے افراد اور زمین کے برابر سونا لے کر مجھے چھوڑ دیا جائے۔ (المعارج : 11تا14) جس دنیا کی خاطر انسان اللہ اور آخرت کو بھول جاتا ہے اس دن اس کی کوئی چیز کام نہیں آئے گی اس لیے فرمایا کہ اے لوگو تمہیں دنیا کی زندگی اور شیطان تمہارے رب سے دور نہ کر دے۔ قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بے بسی : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَائِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے کہیں گے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ تو وہ کہے گا کہ آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن مجھے ذلیل نا کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی ذلت ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ لفظ غرور کے دو معانی ہیں۔1 ۔اگر ” غین“ پر زبر پڑھیں تو اس کا معنٰی شیطان ہوگا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ﴿وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾ کہ شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ نہ دے۔2 ۔دوسرا معنٰی ہے دھوکہ، فراڈ۔ مسائل: 1۔ انسان کو اپنے رب سے ڈر کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ 2۔ انسان کو دنیا کی زیب و زینت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مجرم کو کوئی چیز فائدہ نہ دے گی : 1۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکے گا۔ (آل عمران :91) 2۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام :51) 3۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف :105) 4۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہیں آئے گا۔ (الاعراف :48)