مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
نہیں ہے تمھارا پیدا کرنا اور نہ تمھارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ وہی پوری کی پوری کائنات کا مالک اور بادشاہ ہے اس کی تعریفات ختم ہونے والی نہیں وہی دوبارہ پیدا کرنے اور مارنے والا ہے۔ قرآن مجید نے تخلیق انسان کا بڑی تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا اور بتایا ہے کہ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرما کر پھر بے شمار مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ [ النساء :1] کفار کا سوال تھا کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو پھر اسے کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے قرآن مجید نے اس کے کئی جواب دئیے ہیں یہاں یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو پیدا کرنا اور ان کی موت کے بعد اٹھانا ایک انسان کو پیدا کرنے اور اس کو اٹھانے کی طرح ہے کیونکہ وہ کسی کام کے لیے صرف ” کُنْ“ کہتا ہے اور وہ کام بالکل اس کے حکم کے مطابق ہوجاتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام لوگوں کو پیدا کرنا ایک انسان کے پیدا کرنے کے برابر ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: موت کے بعد جی اٹھنے کے ثبوت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:73) 2۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:259) 3۔ چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ :260) 4۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف :25) 5۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیں : (البقرۃ:243) (الاعراف :155) (المائدۃ :110)