سورة لقمان - آیت 25

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلا شبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : کفرو شرک اختیار کرنے والوں سے ایک سوال۔ جو لوگ دنیا کی مختصر مدّت اور قلیل فائدے کی خاطر کفرو شرک اختیار کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جن کو ہم اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں ان کا زمین و آسمان کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف نبی اکرم (ﷺ) کے بدترین دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ اس لیے آپ کو حکم ہوا کہ ان سے استفسار فرمائیں کہ بتاؤ کہ زمینوں آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ کفار مکہ کا جواب یہی ہوتا تھا کہ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس طرح وہ ” اللہ“ کے خالق ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے کہ مشرکوں کے پاس حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر اس کے باوجود ان کی اکثریت جہالت کا اظہار کرتی ہے حالانکہ انہیں اسی خالق کی عبادت کرنی چاہیے۔ انہیں فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب کا سب ” اللہ“ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمدوستائش کے لائق ہے اگر تمام کے تمام انسان کفرو شرک پر تل جائیں تو اس کی بادشاہی اور حمدوستائش میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئا یَا عِبَادِیْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو ! اگر تمہارے پہلے، آخری اور تمام انسان اور جن ایک متقی آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے، اور بعد والے، تمام کے انسان اور جن ایک فاجرشخص کے دل کی طرح ہوجائیں تو بھی میری بادشاہت میں ذرا برابر کمی نہیں کرسکتے۔“ غنی کا معنٰی دولتمند، مالدار، مستغنی، مکتفی اور حمید کا معنٰی تعریف کرنے والا، تعریف کیا ہوا ہے۔ مسائل: 1۔ ہر دور کے کافر اور مشرک اقرار کرتے ہیں کہ زمین و آسمانوں کا خالق ” اللہ“ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ حمدوستائش کے لائق اور بے نیاز ہے۔ تفسیر بالقرآن: کفار اور مشرکین کا توحید باری تعالیٰ کا اعتراف : 1۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا، سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے مشرک ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ( العنکبوت :61) 2۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً کہیں گے کہ انہیں زبردست اور سب کچھ جاننے والے ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ (لزخرف :9) 3۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پرکس کی بادشاہت ہے ؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ کی بادشاہت ہے۔ (المومنون : 88۔89) 4۔ اگر آپ (ﷺ) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ (لقمان :25) 5۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (النمل :64) 6۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ تو کہتے ہیں ” اللہ“ ہی خالق ہے۔ (الزمر :38) 7۔ فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ؟ تو وہ فوراً کہیں گے ” اللہ“ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ (یونس :31) 8۔مشرکوں سے پوچھا جائےسات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟جوابا کہتے ہیں ،اللہ ہی مالک ہے۔(المومنون:86 ۔87) 9۔مشرکین بھی مشکل کے وقت خالصتا ً اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔(یونس:22)