سورة لقمان - آیت 13

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا اے میرے چھوٹے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : سب سے بڑی حکمت کی بات یہ ہے کہ انسان اپنے رب پر بلاشرکت غیرے ایمان لائے اور اس کا شکریہ ادا کرے۔ جس نے نعمتوں کا اعتراف کیا اور اپنے رب کا شکرادا کیا یقیناً وہ شرک سے بچ جائے گا اور یہی سب سے بڑی دانائی ہے۔ حضرت لقمان کے بارے میں صحابہ کرام (رض) اور مفسرین کی غالب اکثریت کی رائے ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ صرف نیک اور انتہائی دانشور انسان تھے۔ اہل عرب نہ صرف ان کی دانشمندی کے قائل تھے بلکہ بوقت ضرورت ان کے اقوال کا حوالہ بھی دیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس لیے حضرت لقمان کے ارشادات کا ذکر کیا ہے تاکہ مشرکین مکہ کو معلوم ہو کہ جس توحید کی وجہ سے ہم نبی (ﷺ) کی مخالفت کرتے ہیں اسی توحید کی حضرت لقمان تبلیغ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے لخت جگر کو جو نصیحتیں اور وصیتیں کیں ان میں سرفہرست یہ وصیّت تھی کہ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ بیٹا یقین جان! کہ سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا ہے ظلم کی تعریف کرتے ہوئے اہل لغت نے لکھا ہے۔ وَضْعُ الشَّیْءِ غَیْرَ مَحَلِّہٖ“ ” کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دینا۔“ حضرت لقمان کی وصیتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ ہم نے لقمان کو یہ حکمت عطا فرمائی تھی جس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں سب سے بڑی حکمت اور عقل کی بات اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھنا، اس پر پکے رہنا اور اس کا پرچار کرنا ہے۔ عقیدہ توحید کے برخلاف نظریہ رکھنا۔ صرف کفرو شرک کی بات نہیں بلکہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اپنی اولاد کو وصیت : ﴿وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آَبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ﴾[ البقرہ : 131، 132] ” جب ابراہیم کے رب نے اسے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجا اس نے عرض کی میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ () یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ(صحیح)] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں تو اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے گا تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل: 1۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیّت کی کہ ” بیٹا“ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ 2۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ تفسیر بالقرآن: شرک کی قباحتیں : 1۔ شرک کی ممانعت۔ (البقرۃ :22) 2۔ شرک بڑا ظلم ہے۔ (لقمان :13) 3۔ مشرک ناپاک ہے۔ (التوبۃ:28) 4۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (الانعام :88) 5۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح :6) 6۔ مشرکوں پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ:72) 7۔ شرک معاف نہیں ہوگا۔ (النساء :48) 8۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون :117) 9۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج :31) 10۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم :23) 11۔ اٹھارہ جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) کا تذکرہ کر کے فرمایا اگر یہ شرک کرتے تو ان کے اعمال بربادہوجاتے۔ (الانعام :88)