فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس تو اپنا چہرہ سیدھے دین کی طرف سیدھا کرلے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی اللہ کی طرف سے کوئی صورت نہیں، اس دن وہ جدا جدا ہوجائیں گے۔
فہم القرآن: (آیت43سے45) ربط کلام : دنیا کے فساد اور برے انجام سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے چہرے کو اللہ ہی کی طرف متوجہ رکھے۔ انسان اسی بنیاد پر ہی دنیا اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ عقیدہ توحید اور دین کی اہمیّت اور اس کی فضیلت کے پیش نظر براہ راست سرور دوعالم (ﷺ) کو حکم دیا گیا کہ مشرک جس قدر چاہیں عقیدہ توحید اور دین اسلام کو ناپسند کریں اور اس کی مخالفت کرتے رہیں آپ کو ہر حال میں اپنے چہرے کو اپنے رب کی طرف رکھنا اور دین اسلام پر قائم رہنا چاہیے۔ اس دن سے پہلے جو ہر صورت آکر رہے گا جو کسی کے انکار یا اقرار سے ٹل نہیں سکتا۔ اس دن سب لوگ منتشر ہوں گے کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور جس نے عقیدہ توحید اپنانے کے ساتھ نیک عمل کیے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس دن ایمان دار اور صالح عمل کرنے والوں کو اپنی طرف سے مزید فضل وکرم سے نوازے گا۔ کفار اور مشرکین کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی صورت بھی انہیں پسند نہیں کرتا۔ جسے اللہ تعالیٰ پسند نہ کرے اس کا انجام کس طرح اچھا ہوسکتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ” اَلدِّیْنِ“ سے مراد عقیدہ توحید اور پورا دین ہے۔ اس میں دو اشارے پائے جاتے ہیں کہ ہر آدمی کو مرتے دم تک عقیدہ توحید اور دین پر قائم رہنا چاہیے اور دوسرا اشارہ یہ ہے کہ ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا عقیدہ اور دین اسلام قیامت تک باقی رہے گا۔ جس طرح قیامت کسی کے ٹالنے سے ٹل نہیں سکتی اسی طرح مخالفوں کی مخالفت کے باوجود دین اسلام قیامت تک قائم رہے گا جس کا سرفہرست عنوان عقیدہ توحید ہے جو اس کا انکار کریں گے وہ سزا پائیں گے اور جو اس کا اقرار کریں گے وہ بہترین جزاپائیں گے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ ” یَمْھَدُوْنَ“ ” مَہَدَ“ سے ہے جس کا معنٰی ہے بستر بچھانا، راستہ ہموار کرنا بھی ہے۔ مفہوم یہ ہوا کہ ایماندار لوگ صالح اعمال کے ساتھ دنیا میں رہتے ہوئے جنت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں بالفاظ دیگر جنت میں اپنا بستر بچھا رہے ہیں۔ کسی چیز پر چہرہ جمانے سے مراد اس کی طرف کامل توجہ کرنا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنا ہے۔ ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں عرض کیا مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے ’ آپ کے علاوہ‘ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس پر قائم ہوجاؤ۔“ [ رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِی الْأَرْضِ اللّٰہُ، اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں بے شک رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والے لوگ موجود ہوں گے۔“ تفسیر بالقرآن: عقیدہ توحید اور دین اسلام پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم : 1۔ آج کے دن تمہارے لیے تمہار ادین مکمل ہوا، میں نے اپنی نعمت تم پرتمام کی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدۃ:3) 2۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دین اسلام ہی ہے۔ (آل عمران :19) 3۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم :30) 4۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ :132) 5۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیک لوگوں سے ملا دے۔ یوسف (علیہ السلام) کی دعا۔ (یوسف :101) 6۔ کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران :83) 7۔ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے اس کا دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران :85)