ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
فہم القرآن: (آیت41سے42) ربط کلام : سابقہ آیات میں صدقہ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ سود خوری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اب ان کے دنیا میں پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے انسان کو بارہا دفعہ یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان تیرا خالق، رازق، مالک اور بادشاہ صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ جس کا پہلا اور بنیادی تقاضا ہے کہ تم بلاشرکت غیرے میری بندگی کرو اور آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔ لیکن انسانوں کی غالب اکثریت نے اپنے رب کی ذات اور اس کے احکام کو فراموش کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کی بالخصوص مالی استحاصل کیا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ دنیا امن و امان کی بجائے فتنہ وفساد کا گہوارہ بن گئی یہاں تک کہ بحروبرّمیں فساد برپا ہوا۔ بھائی نے بھائی کا گلا کاٹا، بیٹا باپ کا دشمن بنا میاں اور بیوی کے درمیان تفریق پیدا ہوئی، ماں نے اپنے معصوم بچوں کا گلا گھونٹا۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوا، لوگوں کی عزتیں تارتار ہوئیں، بڑوں کا دل چھوٹوں کی محبت سے خالی ہوا اور چھوٹے بڑوں کے گستاخ ٹھہرے۔ ایک ملک نے دوسرے پر چڑھائی کی، طاقتور نے کمزور کو پیوند خاک کیا، گھر ویران ہوئے بستیاں اجڑ گئیں، ملک تباہ ہوئے۔ اس طرح انسان کا اپنا ہی کیا اس کے سامنے آیا۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کو ان کے کیے کا انجام اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ لیکن انسان ہے جو سب کچھ دیکھنے اور پانے کے باوجود اپنے رب کی طرف پلٹنے کا نام نہیں لیتا اس کا پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان صرف ایک اللہ سے ڈرنے کی بجائے دوسروں سے ڈرتا ہے اس پر توکل کرنے کی بجائے دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے اس کے حضور جھکنے کی بجائے خود ساختہ معبودوں کے سامنے سرجھکاتا ہے۔ اس کا حکم ماننے کی بجائے دوسروں کا حکم مانتا ہے یہی شرک ہے اور اسی کے سبب انسان، انسان بننے کی بجائے حیوان اور درندہ بن جاتا ہے۔ اسی سے نظام بگڑتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے ہلاک کیا اگر یقین نہیں آتا تو انسان دنیا کی تاریخ پڑھے اور چل پھر کر نگاہ عبرت سے قوموں کے کھنڈرات دیکھے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے کفرو شرک اور ظلم و ستم کرنے والوں کو کس طرح تباہ کیا۔ اس فرمان کے پہلے مخاطب عرب تھے جنہوں نے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ دوسرے مخاطب ایرانی اور رومی تھے جنہوں نے اس وقت پوری دنیا کے امن کو تہہ بالا کردیا تھا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس لیے ان کے اعمال کا کچھ نہ کچھ انجام دکھلاتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کے حضور توبہ کریں اور آخرت کے عذاب سے بچ جائیں اس طرح دنیا کے عذاب میں ہمارے رب کی شفقت پنہاں ہوتی ہے۔ انسان کو اس کا خیال رکھتے ہوئے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مسائل: 1۔ بحروبر میں فساد برپا ہونے کا بنیادی سبب ” اللہ“ کی بغاوت اور اس کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے برے اعمال کا انجام دکھاتا ہے تاکہ لوگ تائب ہوجائیں۔ 3۔ دنیا کا جغرافیہ اور تاریخ اقوام کی تباہی پر گواہ ہیں۔ تفسیر بالقرآن: فساد فی الارض کے بنیادی اسباب : 1۔ فساد بپا کرنے اور برے انجام سے دوچار ہونے والوں کی اکثریت مشرک تھی۔ (الروم : 41، 42) 2۔ فرعون فساد کرنے والا تھا۔ (یونس :91) 3۔ زمین میں فساد برپا ہونا لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔(الروم:41) 4۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا لین دین میں کمی کے ذریعے زمین میں فساد کرنے کا باعث نہ بنو۔ (الاعراف :85) 5۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے کفار اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے : (آل عمران :112) 6۔منافق فسادی ہیں ۔(البقرہ:11) 7۔ یاجوج وماجوج فسادی ہونگے۔(الکھف:94) 8۔یہودی فساد پھلانے والے ہیں ۔( المائدہ:64) 9۔بچوں کو قتل کرنا فساد کرنے کے مترادف ہے۔(القصص:4) 10۔فسادیوں کی سزا۔(المائدہ:33)