مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
ان لوگوں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کئی گروہ ہوگئے، ہر گروہ اسی پر جو ان کے پاس ہے، خوش ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ کا ” اَلدِّیْنُ“ ایک تھا لیکن لوگوں نے ” اَلدِّیْنُ“ کو تقسیم کیا اور فرقہ واریّت میں مبتلا ہوگئے۔ عقیدہ توحید وحدت فکر دیتا ہے۔ اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس طرح تمہارا الٰہ ایک ہے اسی طرح تمہیں بھی ایک ہونا چاہیے یہی پورے دین کی فکر ہے۔ لیکن جن لوگوں نے عقیدہ توحید میں ملاوٹ کی اور ” اَلدِّیْنُ“ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور گروہ بندی کا شکار ہوگئے۔ توحید میں شرک کی آمیزش کرنے اور الدّین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی وجہ سے لوگ توحید کی وحدت اور ” اَلدِّیْنُ“ سے دور ہوئے۔ انہیں اس پر افسوس کی بجائے اپنی گروہ بندی پر فخر ہے اور اسی کو اصل دین سمجھتے ہیں ہر کوئی اس پر شاداں اور فرحاں دکھائی دیتا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ ﴿وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ (صحیح)] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (ﷺ) کے پس تھے آپ (ﷺ) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف لکیریں کھینچی پھر آپ نے اپنا دست مبارک درمیان کی لکیر پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے اور یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ﴿وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾“ ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنّت میں جائے گا۔ عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ ان کے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں داخل ہوگا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتّی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے ہیں۔“ [ رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم] (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِاَعْجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی(ﷺ) (صحیح) ] ” اے لوگو! خبردار یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، سرخ کو کالے پر اور کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ ” حضرت مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی کے ساتھ تھا مے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ [ موطا امام مالک : باب النَّہْیِ عَنِ الْقَوْلِ بالْقَدَرِ(حسن)] سب سے پہلے امت میں افتراق اور دین میں اختلاف جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب نے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ اس کا امت کے ساتھ کوئی ناطہ نہ تھا اور صحابہ کرام (رض) نبی (ﷺ) کے تربیت یافتہ تھے۔ اس لیے انہوں نے نہ صرف فکری طور پر اس فتنے کا تدراک کیا بلکہ قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اس کا قلع قمع کردیا۔ اس کے بعد حضرت علی (رض) کے دور میں خارجی فرقہ پیدا ہوا۔ حضرت علی (رض) نے ان کا مقابلہ کیا جس بنا پر یہ فتنہ زیادہ مدت تک نہ چل سکا۔ اس کے بعد علاقائی طور پر خلق قرآن اور جبری طلاق جیسے فتنے پیدا ہوئے۔ مگر اس دور کے آئمہ کرام نے ان فتنوں کو دبا دیا۔ اس دوران سیاسی اختلافات رونما ہوئے اور خلافت راشدہ کئی حصوں میں تقسیم ہوئی۔ مگر اعتقادی اور فکری اعتبار سے امت چار سو سال متحد رہی۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رض) اور دیگر اہل علم کی تحقیق کے مطابق چوتھی صدی ہجری کے آخر میں امت فکری طور پر چار حصوں میں تقسیم ہوئی۔ آئمہ کرام کے نام پر مستقل طور پر چار فرقے معرض وجود میں آئے۔ جو حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کہلائے۔ اور پاکستان میں حنفی کہلوانے والے حضرات قادری، سہروردی، نقشبندی، چشتی اور دیوبندی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس فرقہ واریت کے باوجود ہر دور میں ایک جماعت توحید وسنت پر قائم رہی اور وہ قیامت تک قائم رہے گی۔ مسائل: 1۔ جن لوگوں نے شرک کیا وہ فرقہ فرقہ ہوگئے۔ 2۔ ہر گروہ اپنی رسومات اور فقہ پر خوش ہے۔ تفسیر بالقرآن: اتحاد کا حکم : 1۔ اتحاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران :103) 2۔ اتحاد اللہ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال :63) 3۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام :65) 4۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ:256) 5۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران :103)