وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تمھیں خوف اور طمع کے لیے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی اتارتا ہے، پھر زمین کو اس کے ساتھ اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نویں، دسویں اور گیا رہویں نشانی۔ انسان کی زندگی اور اس کے رزق کا دارومدار پانی پر ہے اور پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اگر ایک مدّت تک بارش نہ ہو تو نہ صرف پہاڑوں میں پھوٹنے والے چشمے خشک ہوجاتے ہیں بلکہ زمین کا پانی بھی اتنا نیچے چلا جاتا ہے کہ اس کا حاصل کرنا لوگوں کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں۔ ہوائیں انہیں اٹھا کر فضا میں کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ فرشتہ انہیں ہانک کر وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں برسنے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس کے سینے میں چھپے ہوئے بیج اس کی چھاتی پر لہلہانے لگتے ہیں جس میں عقل والوں کے لیے پہلا سبق یہ ہے کہ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرماکر اپنے حضور کھڑا کرے گا۔ اس آیت میں آسمانی بجلی کے بارے میں خوف اور امید کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو ہر چیز کو خاکستر کردیتی ہے۔ جب اوپر چڑھتی ہے تو اس کی آواز اس قدر گرج دار اور خوف ناک ہوتی ہے کہ سننے والوں کے کلیجے دھک دھک کرنے لگتے ہیں اور کئی فصلیں ایسی ہیں بالخصوص چنے کی فصل جو البرق کی چمک سے جل کرراکھ ہوجاتی ہے۔ جہاں زمین پر بجلی کے گرنے کے نقصانات ہیں وہاں اس کی وجہ سے ایسی گیسیں زمین پر اترتی ہیں جن کے بے شمار کیمیائی فوائدہو تے ہیں۔ بجلی کی گرج اور چمک سے خوف کے ساتھ ساتھ بارش برسنے کی امید اور بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح اس میں امید اور خوف دونوں پائے جاتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودٌ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَا لُوْا صَدَقْتَ )[ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ یہودی نبی (ﷺ) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابوالقاسم! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ جہاں لے جانے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔“ ﴿وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَ الْمَلآءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ﴾ [ الرعد :13] ” اور بجلی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے۔“ مسائل: 1۔ آسمانی بجلی بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے۔ 2۔ البرق میں خوف اور امید دونوں موجود ہوتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں سے بارش برساتا ہے اور اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ 4۔ جس طرح ایک مدت کے بعد بارش کے ساتھ زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی ہر قدرت میں عقل مندوں کے لیے نصیحت کا سبق موجود ہوتا ہے تفسیربالقرآن: بارش کا نزول اور اس کے فوائد : 1۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے اس کے ساتھ کیا دوسرا الٰہ ہے ؟ (النمل :60) 2۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں ” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ :164) 3۔ قیامت، بارش کا نازل ہونا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (لقمان :34) 4۔ برق اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ ( الرعد :13)