سورة الروم - آیت 19

يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم نکالے جاؤ گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت19سے20) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور نماز پڑھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردے سے زندہ پیدا کرتا ہے اور اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا اور زمین میں بکھیر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور اس لیے جھکنا ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا ہے جس کا ایک واضح ثبوت یہ دھرتی ہے جس کا انسان پوری زندگی مشاہدہ کرتا اور اس پر بسیرہ کرتا ہے بالخصوص صحرا میں رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب بارش نہ ہو تو وہاں بسنے والے لوگ اس قدر مایوس ہوجاتے ہیں کہ انہیں ہجرت کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ جونہی بارشیں ہوتی ہیں تو وہی صحرا اس قدر شاداب ہوجاتا ہے کہ اس کا سہانا اور دلکش منظر دیکھنے کے لیے لوگ دوردور کے شہروں سے آکر کئی کئی روز وہاں تفریح کے طور پر قیام کرتے ہیں۔ جس طرح زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردہ زمین سے مردہ انسانوں کو زندہ کرے گا۔ اور اسی مردہ زمین سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اس کے بعد نسل درنسل تخلیق انسانی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انسان کی خوراک رہناسہنا اور مرنا جینا بھی مٹی کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے علم نہیں یقین ہوجائے گا کہ اس کی اپنی پیدائش بھی مردہ سے ہوئی ہے۔ انسان اوّل یعنی آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ جو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی بے حس و حرکت یعنی مردہ تھی اور آج بھی حس وحرکت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عزرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ زمین سے مٹی اٹھالاؤ۔ عزرائیل (علیہ السلام) مٹی اٹھالائے تو اللہ تعالیٰ نے زمین سے انسان کا ڈھانچہ بنایا پھر اس میں روح پھونکی تو مردہ زمین سے چلنے، پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے، پینے والا زندہ انسان معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر اس کی افزائش کا سلسلہ شروع فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اس کی پیدائش پانی کی بوند سے ہوئی ہے۔ جو لاتعداد جرثوموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خالق کی تخلیق پر غور فرمائیں کہ اس نے اس بوند سے خون کا لوتھڑا بنایا اور پھر لوتھڑے سے انسان کا بہترین وجود بنایا اور اس کے بعد اس میں روح پھونکی اور بطن مادر میں ہی اس کے مستقبل کے معاملات طے فرما دیئے۔ انسان ہر دور میں چیزیں ایجاد کرتے اور بناتے رہے ہیں اور بناتے رہیں گے لیکن انسان پانی کے ایک قطرے کے ایک حقیر سے حصہ سے کوئی چیز ایجاد نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ بالخصوص کوئی جاندار چیز تو کبھی نہیں بنا سکے گا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس نے پانی کی ایک بوند سے بہترین شکل و صورت والا انسان پیدا کیا اس لیے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں بار، بار غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کی نسل چلانے اور پھیلانے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو پیدا کرے گا۔ تفسیربالقرآن: تخلیق انسان کے مراحل : 1۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 2۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 3۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون :12) 4۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء :1) 5۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف :37) 6۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم :20) 7۔ ” اللہ“ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے پھر تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 8۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر :11) 9۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر جسطرح چاہتا ہے پیدا کرتا۔ (الحج :5)