فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ شریک بنا رہے ہوتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت65سے66) ربط کلام : مشرکوں کا مشکل وقت پر ” اللہ“ کی ذات کا اقرار کرنا، اور صرف اسے پکارنا۔ موحّد اور مشرک کے عقیدہ کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ موحّد ہر حال میں ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے اور مشرک صرف مصیبت کے وقت ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے یہی حال مشرکین مکہ کا تھا وہ عام حالات میں صرف ایک ” اللہ“ کو پکارنے کی بجائے دوسروں کو بھی شامل کرتے اور انہیں پکارتے تھے، حالانکہ قرآن مجید نے بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ نہ ” اللہ“ کے سوا کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو پکارا جائے، لیکن نہ مکہ کے مشرک اس بات سے رکتے تھے اور نہ آج کے مشرک اس سے باز آتے ہیں، حالانکہ ہر دور میں مشرک کی یہ حالت رہی ہے اور رہے گی کہ بڑی مصیبت کے وقت سب کو بھول کر صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ یہی مکہ والے کرتے تھے۔ جب کشتی بھنور میں پھنس جاتی تو صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتے جب کشتی بھنور سے نکل جاتی تو کہتے کشتی فلاں بزرگ یا بت کی مدد سے بھنور سے نکلی ہے۔ یہاں شرک کو کفر قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ چاہے تو کشتی کو غرقاب کر دے لیکن وہ مشرک کو اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ اپنے رب کی نعمتوں سے مزید فائدہ اٹھالے۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملّاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ ملاّح نے مسافروں سے کہا کہ جب بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو۔ اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات عکرمہ کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو محمد (ﷺ) دعوت دیتا ہے اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چنانچہ عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں ” اَلدِّیْنَ“ کا معنٰی تابعداری ہے۔ یعنی پوری تابع داری کے ساتھ صرف ایک ” اللہ“ کو پکارو جس طرح تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے۔ لیکن افسوس اس تاریخی حقیقت اور قرآن مجید کے منع کرنے کے باوجود آج کا مشرک کشتی ڈوبنے کے وقت بھی صرف ایک ” اللہ“ کو پکارنے کے لیے تیار نہیں ہوتا وہ بے جھجک کہتا ہے۔ یا معین الدین چشتی ۔پار لگا دے کشتی یا بہاء الحق بیڑا دھک یا پیر عبدالقادر شیأ اللہ مسائل: 1۔ مشرک صرف سخت مصیبت کے وقت ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے موحد ہر حال میں ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر حال میں صرف ایک اللہ کو پکارنا چاہیے : 1۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس :22) 2۔ لوگو! اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر :3) 3۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی خالص عبادت کروں۔ (الزمر :11) 4۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو ” اللہ“ کو خالصتاً پکارتے ہیں۔ (العنکبوت :65) 5۔ مومنو! اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن :14) 6۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن :65) 7۔ ہر کسی کو یہی حکم دیا گیا کہ خالصتاً اللہ کو پکارا جائے۔ ( البینۃ:5) 8۔اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کی پکارسننے اور قبول فرمانے والا ہے(النمل:62)