وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جارہے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت61سے62) ربط کلام : اے ہجرت کرنے والو! اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو مشرکین سے پوچھ لو کہ رزق دینے والا کون ہے؟ اس کے ساتھ ہی مشرکین سے مزید سوال۔ قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے؟ قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والوں! بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور شمس و قمر کو تمہارے لیے کس نے مسخر کر رکھا ہے ؟ توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بے ساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر ایک اللہ کو چھوڑ کر کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ وہ تمہیں کھلاتا اور پلاتا بھی ہے۔ جس طرح زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا اسی طرح اللہ کے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ نہ صرف کوئی رزق دینے والا نہیں بلکہ تمہارے رزق میں کوئی ایک دانے کے برابر بھی کمی وبیشی نہیں کرسکتا۔” اللہ“ ہی اپنی حکمت کے تحت اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود مشرک اپنے رب کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نزول وحی سے پہلے نبی اکرم (رض) اسفل بلدح مقام کی نچلی جانب زید بن عمرو بن نفیل سے ملے۔ نبی کریم (رض) کو دستر خوان پر کھانا پیش کیا گیا۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اور زید بن عمرو نے بھی کہا کہ میں اس چیزکو نہیں کھاؤں گا جس کو تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور نہ ہی وہ چیز کھاؤنگا جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ زید بن عمرو کے الفاظ (وَأَنَّ زَیْدَ بْنَ عَمْرٍو کَانَ یَعِیبُ عَلَی قُرَیْشٍ ذَبَاءِحَہُمْ، وَیَقُول الشَّاۃُ خَلَقَہَا اللَّہُ، وَأَنْزَلَ لَہَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ، وَأَنْبَتَ لَہَا مِنَ الأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُونَہَا عَلَی غَیْرِ اسْمِ اللَّہِ إِنْکَارًا لِذَلِکَ وَإِعْظَامًا لَہُ ) [ رواہ البخاری : باب حَدِیثُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ] زید بن عمروقریش کے ذبیحوں پر تعجب کرتے اور کہتے کہ بکری کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اسی نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے نباتات اگائی ہیں۔ پھر تم اس کا انکار اور غیر اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے ان چیزوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو؟“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور شمس وقمر کو مسخر فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے۔ 3۔ ” اللہ“ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ 4۔ حقائق تسلیم کرنے کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ ہی نے زمین و آسمانوں اور شمس وقمر کو پیدا فرمایا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ:22) 2۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اند ھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام :97) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ (نوح :16) 4۔ یقیناً اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، فرمائیں پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت :61)