قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۖ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
کہہ دے اللہ میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ کافی ہے، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ لوگ جو باطل پر ایمان لائے اور انھوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : منکرین نبوت کو ایک اور جواب۔ منکرین نبوت کے پے در پے مطالبات پورے کر دئیے گئے اور ان کے ہر سوال کا مُدّلل جواب دیا گیا اور وہ اس کے مقابلے میں لا جواب ہوئے مگر اس کے باوجود مطالبہ کرتے کہ اے نبی (ﷺ) آپ کی نبّوت کی تائید میں فلاں قسم کا معجزہ نازل کیوں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو بالآخر یہ جواب دیا گیا کہ تمہارے پاس دیگر معجزات کے ساتھ قرآن مجید جیسا عظیم اور زندہ جاوید معجزہ آچکا ہے۔ لیکن پھر بھی تم ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہو۔ اب میرے اور تمہارے درمیان ” اللہ“ ہی گواہ ہے اور وہ ٹھیک، ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے جو نہ صرف تمہاری نیتوں کو جانتا ہے بلکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ جو باطل کو مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کا انکار کرتے ہیں بالآخر نقصان پائیں گے۔ اس فرمان میں باطل پرستوں کو دائمی اور لا محدود نقصان سے آگاہ کرنے کے ساتھ یہ سمجھایا ہے کہ اگر تم ٹھوس دلائل اور واضح حقائق کو نہیں مانتے تو میرے ساتھ الجھنے کی بجائے تم اپنا کام کرو۔ میری نبوت کی تائید کے لیے میرے رب کی گواہی کافی ہے۔ ایسے موقعہ پر آپ (ﷺ) کو یہ آیت پڑھنے اور اس پر مضبوط عقیدہ رکھنے کی تلقین فرمائی گئی کیونکہ جسے ” اللہ“ کا سہارا حاصل ہوجائے وہ کامیاب ہوگا، ہر مبلغ اور مسلمان کے لیے یہی آخری سہارہ اور بیش بہا سرمایہ ہے۔ ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ﴾[ التوبہ :29] ” پھر اگر وہ منہ موڑیں تو فرما دیں مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔“