وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَٰؤُلَاءِ مَن يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف یہ کتاب نازل کی، پھر وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی، اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان (مشرکین) میں سے بھی کچھ وہ ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر جو کافر ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے تورات، انجیل، زبور اور صحف ابراہیم نازل کیے اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل میں یہ بات بھی بیان فرمائی ہے کہ تمام انبیاء کے آخر میں حضرت محمد (ﷺ) خاتم المرسلین کے طور پر مبعوث کیے جائیں گے اور ان پر قرآن نازل کیا جائے گا۔ جس کا تذکرہ یوں کیا جا رہا ہے کہ اسی طرح ہی ہم نے آپ (ﷺ) کی طرف قرآن مجید نازل کیا جن لوگوں کو ہم نے آپ سے پہلے کتاب عنایت کی اور وہ اس پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔ وہی لوگ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اور اہل مکہ میں بھی قرآن مجید پر ایمان لانے والے ہیں۔ حقائق جاننے اور ٹھوس دلائل آنے کے باوجود ہماری آیات کے ساتھ صرف کافر لوگ ہی جھگڑا کیا کرتے ہیں۔ پہلی کتابوں پر ایمان لانے کا معنٰی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ ان پر ایمان لانے کے باوجود سب کے لیے قابل اتباع صرف قرآن مجید ہے کیونکہ یہ سب سے آخری آسمانی کتاب ہے۔ ایمان کی مبادیات اور ان کا مرکزی تقاضا : (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ )[ رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ بالوں والا جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (ﷺ) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا۔ اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں اور اس نے اسے اپنی زبان سے منع کیا وہ بھی بری ہوا۔ اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی مگر اس نے اسے اپنے دل سے برا سمجھا تو وہ بھی بری ہوگیا۔ یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ مسائل: 1۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح نبی اکرم (ﷺ) پر قرآن نازل کیا ہے۔ 2۔ پہلی کتابوں پر صحیح ایمان رکھنے والے لوگ قرآن مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ صرف کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن : پہلی آسمانی کتابوں اور قرآن مجید پر ایمان لانا فرض ہے : 1۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:4) 2۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:136) 3۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:285)