اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
اس کی تلاوت کر جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کر، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
فہم القرآن: ربط کلام : عقیدہ توحید سمجھانے کے بعد نبی (ﷺ) کی نبوت کے عقلی اور تاریخی دلائل۔ نبی معظم (ﷺ) کے ساتھ مشرکین کا سب سے بڑا اختلاف عقیدہ توحید پر تھا۔ ان کا آخری مطالبہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی ان آیات کو خارج از قرآن کیا جائے جن میں ہمارے معبودوں کی نفی کی گئی ہے۔ اس پر آپ (ﷺ) کو حکم ہوا آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی تبلیغ کرتے رہیں اور یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے۔“ ﴿ اُتُلُ مَا اُوْحِیَ﴾ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! آپ پر قرآن کی صورت میں جو بھی وحی کی جا رہی ہے اس کی تلاوت کیا کریں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ ایمان میں مضبوط شخص ہی مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اور نماز قائم کریں بے شک نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یہ اللہ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ یہاں ” اللہ“ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل قرار دیا گیا ہے جس کے اہل علم نے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1 ۔نماز سب سے بڑا ذکر ہے۔ 2 ۔نماز سب سے بڑی عبادت اور یادِ الٰہی ہے۔ 3 ۔اللہ تعالیٰ کا کسی کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ اب تینوں باتوں کو قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور یاد کا سب سے مؤثر اور قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اے موسیٰ ! میری یاد کے لیے نماز قائم رکھنا۔ ( طٰہٰ: ١٤) نماز کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر نماز کے تقاضے پورے کیے جائیں تو یقیناً یہ انسان کو بے حیائی سے بچاتی ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اشارے کافی ہیں۔ نماز میں انسان اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ جوڑ کر قیام کرتا ہے اس کے بعد رکوع اور پھر سجدہ بجا لاتا ہے۔ اگر انسان پوری توجہ کے ساتھ یہ ارکان ادا کرے تو نمازی میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ پانچ وقت عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور بار، بار اللہ اکبر کہہ کر اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ اپنا کبریا ماننے والا شخص متکبر نہیں ہوسکتا۔ نماز میں آدمی کو نگاہیں نیچی اور سجدہ کی جگہ پر مرکوز رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجد سے باہر اسے حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی اور کنٹرول میں رکھے جس سے نہ صرف آدمی کی نگاہیں پاک اور اس کا دل بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے۔ بلکہ معاشرے میں بے حیائی ختم کرنے کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے۔ نماز میں انسان تمام مسلمانوں کے لیے خیر اور سلامتی کی دعائیں کرتا ہے اگر ان جذبات کا نماز کے بعد بھی خیال رکھا جائے تو مسلمان ایک دوسرے کی شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نماز سے انسان کو روحانی سکون ملتا ہے۔ اس لیے اس موقع پر یہ حکم نازل ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ نماز قائم کریں۔ تاکہ مخالفوں کی مخالفت سے پریشان ہونے کی بجائے آپ پُر سکون رہیں اور یقین رکھیں کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ نماز دل کا سکون ہے : (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار] نبی (ﷺ) کا فرمان ہے کہ ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا افضل ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (ﷺ) سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو اعمال میں کون ساعمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کون ساعمل بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔“ تلاوت قرآن کی برکت : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْاٰنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآئِلِیْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی] (قال الالبانی ضعیف) ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے روکے رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔“ (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔“ ذکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ﴾ الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ ﴿وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ﴾حسن] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بے چین ہو کر توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتٰی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے)۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃً وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔۔) [ صحیح الترغیب للألبانی :1495] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔“ نبی کریم (ﷺ) کی دعا : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ مسلمان کو قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ 2۔ نماز کو اس کے آداب اور تقاضوں کے ساتھ قائم کرنا چاہیے۔ 3۔ نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے۔ 4۔ نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ 6۔ ” اللہ“ کا ذکر بڑی نیکی ہے۔ تفسیر بالقرآن: نماز کے فوائد : 1۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف :170) 2۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ :5) 3۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت :45) 4۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ:277) 5۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 6۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔ (المؤمنون : 9۔10) 7۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (الرعد :22)